بانی: شاہنواز خان

اہم خبریں
no image
او آئی سی کا سندھ طاس معاہدہ برقرار رکھنے پر زور
no image
آئی ایم ایف سے بجٹ مذاکرات کامیاب، پانی پاکستان کا حق، بھارتی عزائم کو ناکام بنانے کیلئے صوبوں کیساتھ ملکر پانی ذخیرہ کریں گے، وزیراعظم
no image
بلوچستان لائف لائن ہے، فتنہ الہندوستان کا ہر قیمت پر خاتمہ ہوگا: عطا تارڑ
no image
آئندہ مالی سال کے لیے 1000 ارب روپے کا وفاقی ترقیاتی بجٹ منظور
no image
پاکستان بیلاروس کے ساتھ معاشی شراکت داری بڑھانے کا خواہاں ہے، آئی ٹی اور دفاعی شعبوں میں تعاون کو مزید مستحکم بنایا جائے گا، وزیراعظم شہباز شریف کی بیلاروس کے وفد سے گفتگو
no image
مراکش میں تعلیم کے خواہش مند پاکستانیوں کیلیے بڑی خوشخبری
no image
بجٹ مذاکرات: آئی ایم ایف کے مزید مطالبات سامنے آگئے
no image
ایران نے امریکا کی یورینیم افزودگی کم کرنیکی تجویز مسترد کر دی
no image
اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کا غزہ کی صورتحال پر آج اہم اجلاس
no image
روس کا خطرہ، برطانیہ کا جنگی تیاری کا اعلان، 91 ارب ڈالرز کے اخراجات متوقع
no image
غزہ پر اسرائیلی حملے خوفناک اور ناقابل قبول ہیں، برطانوی وزیراعظم
no image
جنگ بندی کیلئے صدر ٹرمپ کےکردارکو سراہتے ہیں، انہوں نے ثابت کیا کہ وہ امن کے پیامبر ہیں: وزیراعظم
no image
اے اللہ! فلسطینیوں کی مدد فرما، شہدا کو معاف کر، ان کے دشمنوں کو تباہ و برباد کر دے، خطبہ حج
no image
راولپنڈی اوورلوڈنگ اور زائد کرایہ وصولی کے خلاف کریک ڈان شروع
no image
چائنا میڈیا گروپ اور بحریہ یونیورسٹی کی عالمی یوم ماحولیات پر تقریب
no image
کامسٹیک میں آبی بحران اور سندھ طاس معاہدہ پر سیمینار
no image
راولپنڈی، گھریلو ناچاقی پر شوہر کےہاتھوں بیوی قتل
no image
راولپنڈی، انسدادِ ڈینگی ، ضلعی ایمرجنسی رسپانس کمیٹی کا اجلاس
no image
ٹی20 کے بعد ٹیسٹ کی کپتانی! سلمان آغا سے متعلق نئی پیشگوئی
no image
شملہ معاہدہ اب غیر مؤثر ہو چکا ہے، اور ہم ایک بار پھر لائن آف کنٹرول پر 1948 کی پوزیشن پر واپس آ چکے ہیں -خواجہ آصف
no image
پاکستان کا بھرپور جواب: بھارت کی آبی جارحیت پر نئے ڈیمز بنانے کا فیصلہ
no image
سونے کی فی تولہ قیمت میں نمایاں اضافہ، نرخ ہزاروں روپے بڑھ گئے
no image
’بچے دو ہی اچھے‘ پالیسی ختم؛ ویتنام میں 2 سے زائد بچے پیدا کرنے کی اجازت
no image
نیویارک میں خالصتان زندہ باد کے نعرے ، بھارتی سفارتی وفد کو کوڑے کے پیچھے چھپنا پڑا
no image
امریکی صدر ٹرمپ نے 12 ممالک کے شہریوں کے امریکا میں داخلے پر پابندی لگا دی
no image
آئندہ پاک بھارت کشیدگی میں عالمی رہنماؤں کو مداخلت کا موقع نہیں ملےگا، بلاول بھٹو
no image
وزیراعظم شہباز شریف کا عید الاضحیٰ پر سعودی عرب کے دورہ پر پہنچ گئے، ولی عہد محمد بن سلمان سے ملاقات ہوگی
no image
ریل اور روڈ کے ذریعے وسطی ایشیائی ممالک اور یورپ و روس تک رسائی گیم چینجر ہے،عبدالعلیم خان
no image
پاک فضائیہ کے سربراہ سے بیلاروس کے ایئر فورس کمانڈر کی ملاقات، باہمی دفاعی تعاون،دوطرفہ تعلقات کو مزید مضبوط بنانے کے لیے باہمی عزم کا اعادہ
no image
پی ٹی اے نے صارفین کو ’سم‘ سے متعلق خبردار کردیا
no image
قربانی کا گوشت زیادہ عرصے تک محفوظ نہ کریں: ڈی جی پنجاب فوڈ اتھارٹی
no image
وزیر اعلیٰ سندھ اور چیئرمین پی سی بی کی ملاقات، سندھ میں کرکٹ کے فروغ پر تبادلہ خیال

جنگ بندی: ایک اور موقع یا وقتی سکون؟

Published on May 11, 2025

Blog Image

                                                                 تحریر: شہبازخان


10 مئی 2025 کو، بھارت اور پاکستان نے اچانک جنگ بندی کا اعلان کیا۔ چند روز قبل تک سرحدوں پر گولہ باری، فضائی حملے، اور دونوں جانب میڈیا پر حب الوطنی سے بھرپور بیانیے چھائے ہوئے تھے۔ مگر پھر، عالمی دباؤ اور اندرونی سیاسی و معاشی حالات نے دونوں ممالک کو میز پر بیٹھنے پر مجبور کر دیا۔اس کشیدگی کا آغاز “آپریشن بنیان المرصوص” اور اس کے جواب میں بھارتی “آپریشن سندور” سے ہوا، جس کے تحت دونوں ملکوں نے ایک دوسرے کے فوجی ٹھکانوں کو نشانہ بنانے کا دعویٰ کیا۔ اس کشاکش میں کئی قیمتی جانیں ضائع ہوئیں، شہری متاثر ہوئے، اور ایک بار پھر جنوبی ایشیا کے امن کو خطرہ لاحق ہو گیا۔یہ سوال آج ہر ذی شعور کے ذہن میں گونج رہا ہے: کیا یہ جنگ بندی صرف وقتی ہے؟ یا واقعی کوئی نیا باب کھلنے جا رہا ہے؟ تاریخ گواہ ہے کہ بھارت اور پاکستان نے ماضی میں بھی کئی بار جنگ بندی کی، مگر یہ اقدامات اکثر وقتی سکون تک محدود رہے۔ بنیادی مسائل، خاص طور پر مسئلہ کشمیر، پانی کی تقسیم، اور باہمی عدم اعتماد، ہمیشہ ان کوششوں کے بیچ آ کھڑے ہوئے۔عالمی طاقتوں، خصوصاً امریکہ، سعودی عرب اور ترکی کی مداخلت نے اس بار دونوں ملکوں کو ایک بار پھر جنگ بندی پر مجبور کیا۔ لیکن کیا عالمی دباؤ سے قائم ہونے والا امن، عوامی شعور اور علاقائی پالیسی میں تبدیلی کے بغیر قائم رہ سکتا ہے؟اب وقت ہے کہ دونوں ممالک محض جنگ بندی کے اعلانات پر اکتفا نہ کریں، بلکہ اس موقع کو پائیدار امن کی طرف پہلا قدم بنائیں۔ مذاکرات، ثقافتی تبادلے، تجارتی روابط اور عوامی سطح پر میل جول سے ہی وہ پل بن سکتے ہیں جو نفرت کی کھائی کو پاٹ سکیں۔اگر دونوں ملکوں نے اس موقع کو ضائع کیا، تو یہ صرف ایک اور “تاریخی” جنگ بندی بن کر رہ جائے گی۔ وقت کی ضرورت ہے کہ ہم دشمنی کے بیانیے سے نکل کر انسانیت، ترقی اور امن کے بیانیے کو اپنائیں۔۔"آپریشن بنیان المرصوص" اور "آپریشن سندور" جیسے جارحانہ ناموں سے ہونے والی کارروائیاں اس بات کا ثبوت تھیں کہ دونوں ممالک کسی بڑے تصادم کے دہانے پر تھے۔ پاکستان نے نئی دہلی کے نزدیک فضائی کارروائیوں کا دعویٰ کیا، تو بھارت نے کشمیر اور پنجاب کے علاقوں میں درجنوں اہداف کو نشانہ بنانے کی بات کی۔ نقصان دونوں جانب ہوا، جانیں ضائع ہوئیں، اور عام عوام نے ایک بار پھر جنگ کی ہولناکی دیکھی۔اس صورتحال میں سوشل میڈیا ایک اور محاذ بن چکا تھا جہاں حب الوطنی اور نفرت کا امتزاج بے قابو دکھائی دیتا تھا۔ جھوٹے دعوے، ایڈیٹ شدہ ویڈیوز، اور جذبات سے لبریز پیغامات عوامی شعور کو مزید دھندلا رہے تھے۔ جنگ کے حق میں نعرے لگانے والے اس حقیقت سے غافل تھے کہ اصل قیمت صرف فوجی نہیں، عام انسان بھی ادا کرتا ہے۔جنگ بندی کی خبر اگرچہ خوش آئند تھی، مگر اس کے پس پردہ حقیقت یہ ہے کہ دونوں ممالک اندرونی سیاسی اور معاشی دباؤ کا شکار ہیں۔ بھارت میں انتخابات قریب تھے، اور پاکستان کو شدید معاشی بحران اور عالمی تنہائی کا سامنا تھا۔ ایسے میں ایک مکمل جنگ دونوں کے لیے تباہ کن ہو سکتی تھی، اس لیے پسپائی کو “سفارتی کامیابی” کا نام دیا گیا۔تاہم سوال اپنی جگہ موجود ہے: کیا یہ جنگ بندی مستقل امن کی بنیاد بن سکے گی؟ یا پھر ہم ایک اور وقتی وقفے کے بعد دوبارہ اسی خونی دائرے میں لوٹ آئیں گے؟اگر واقعی پائیدار امن مطلوب ہے، تو محض جنگ بندی کافی نہیں۔ مسئلہ کشمیر پر سنجیدہ بات چیت، آبی تنازعات کا حل، اور سب سے بڑھ کر عوامی سطح پر نفرت کے خاتمے کے لیے اقدامات ناگزیر ہیں۔ ورنہ جنگیں صرف سرحدوں پر نہیں، ذہنوں میں بھی لڑی جاتی رہیں گی۔جنگ بندی ضرور ہوگئی، لیکن کیا یہ پائیدار امن کی بنیاد بنے گی؟ یا یہ محض چند دنوں کی خاموشی ہے جو کسی بڑی آفت سے پہلے کی خاموشی کی طرح ہے؟ ماضی ہمیں یہی بتاتا ہے کہ جنگ بندی کے بعد بھی نفرت کے بیج اگتے رہے ہیں، مذاکرات بے نتیجہ رہے ہیں، اور سرحدی جھڑپیں دوبارہ شروع ہو جاتی ہیں۔اصل مسئلہ کشمیر کا ہے، پانی کا ہے، عوامی نفسیات کا ہے، اور سب سے بڑھ کر سیاسی مفادات کا ہے۔ جب تک دونوں ممالک اپنے عوام کو تعلیم، صحت اور معیشت کی طرف راغب نہیں کرتے، تب تک یہ جنگ بندی بھی وقتی قرار دی جائے گی۔اس جنگ بندی کو سنجیدہ لینے کی ضرورت ہے۔ امن صرف ایک معاہدہ نہیں، ایک مسلسل عمل ہے۔ اگر بھارت اور پاکستان اپنی آنے والی نسلوں کو محفوظ مستقبل دینا چاہتے ہیں، تو نفرت اور جنگ کی بجائے بات چیت اور تعاون کو فروغ دینا ہوگا۔

 

 

 

Back to News