نائب وزیراعظم اسحاق ڈار: حرمین شریفین کا دفاع اور کشمیر کا حل وقت کی اہم ضرورت
پاکستان کے نائب وزیراعظم اور وفاقی وزیر خارجہ محمد اسحاق ڈار نے لندن میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے قومی و بین الاقوامی امور پر کھل کر اظہارِ خیال کیا۔ ان کے بیانات نہ صرف پاکستان کی خارجہ پالیسی کے اہم پہلوؤں کی عکاسی کرتے ہیں، بلکہ موجودہ ملکی سیاسی تناظر اور خطے کے بدلتے حالات پر بھی روشنی ڈالتے ہیں۔
حرمین شریفین کی حفاظت: امتِ مسلمہ کی مشترکہ ذمہ داری
اسحاق ڈار نے سب سے پہلے سعودی عرب اور حرمین شریفین کی حرمت اور حفاظت سے متعلق بات کرتے ہوئے کہا:
"حرمین شریفین کی حفاظت ہم سب مسلمانوں کا دینی، اخلاقی اور اجتماعی فرض ہے۔”
یہ بیان ایسے وقت میں آیا ہے جب مشرقِ وسطیٰ میں ایک بار پھر سکیورٹی اور استحکام کے حوالے سے خدشات پائے جا رہے ہیں۔ سعودی عرب، جو کہ امتِ مسلمہ کے لیے ایک روحانی مرکز ہے، اس کی حفاظت کا موضوع ہمیشہ سے اسلامی ممالک کے لیے نہایت حساس رہا ہے۔
ڈار کے اس بیان سے پاکستان کے اس دیرینہ مؤقف کی تجدید ہوئی ہے کہ پاکستان سعودی عرب کے دفاع کو اپنی سلامتی تصور کرتا ہے، اور ہر سطح پر تعاون جاری رکھے گا۔
سعودی عرب سے دفاعی معاہدہ: ڈیڑھ دو سال سے جاری بات چیت
وفاقی وزیر خارجہ نے میڈیا کو بتایا کہ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان ایک اہم دفاعی معاہدے پر بات چیت جاری ہے، جس کا عمل گزشتہ ڈیڑھ سے دو سال سے چل رہا ہے۔
یہ معاہدہ اگر پایۂ تکمیل تک پہنچتا ہے تو:
- دونوں ممالک کے دفاعی تعلقات مزید مستحکم ہوں گے
- مشترکہ مشقوں، تربیت اور ٹیکنالوجی شیئرنگ کو فروغ ملے گا
- خطے میں استحکام اور توازن برقرار رکھنے میں مدد ملے گی
کیا یہ معاہدہ خطے میں نیا اتحاد بنائے گا؟
بین الاقوامی تجزیہ کاروں کے مطابق، اگر پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان یہ دفاعی معاہدہ مکمل ہو جاتا ہے، تو یہ نہ صرف مشرقِ وسطیٰ میں ایک نیا اسٹریٹیجک توازن پیدا کرے گا، بلکہ ایران، اسرائیل اور بھارت جیسے ممالک کی حکمتِ عملی پر بھی اثر انداز ہو سکتا ہے۔
تحریک انصاف کی جانب سے دفاعی تنصیبات پر حملے کی مذمت
اسحاق ڈار نے اندرونِ ملک سیاسی صورتحال پر بھی کھل کر گفتگو کی، خصوصاً 9 مئی کے واقعات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا:
"تحریک انصاف نے دفاعی تنصیبات پر حملہ کر کے ریڈ لائن کراس کی ہے۔”
یہ ایک سخت اور واضح موقف ہے، جو اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ موجودہ حکومت تحریک انصاف کی سیاسی حکمت عملی کو ریاستی اداروں کے خلاف تصور کرتی ہے۔
قومی سلامتی پر سیاست نہیں ہونی چاہیے
اس بیان سے یہ واضح ہوتا ہے کہ وفاقی حکومت، خصوصاً وزیر خارجہ، قومی سلامتی کے معاملات کو سیاسی کھیل کا حصہ بنانے کے سخت خلاف ہیں۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ:
- دفاعی ادارے ریاست کی ریڑھ کی ہڈی ہیں
- ان پر حملے ناقابلِ معافی جرم ہیں
- سیاسی اختلاف کو قومی مفاد سے الگ رکھا جانا چاہیے
- بھارت اور کشمیر: ایک بار پھر مسئلے کے حل کی امید
اسحاق ڈار نے بین الاقوامی معاملات پر گفتگو کے دوران بھارت اور مسئلہ کشمیر کا تذکرہ بھی کیا، اور ایک بار پھر پاکستان کے اصولی موقف کی تجدید کی۔ ان کا کہنا تھا:
"اللہ کرے بھارت کشمیر کا مسئلہ حل کرے، اور آرٹیکل 370 اور 35A کو واپس لے۔”
آرٹیکل 370 کی واپسی: امید یا حقیقت؟
یاد رہے کہ 5 اگست 2019 کو بھارت نے آئین کے آرٹیکل 370 اور 35A کو ختم کر کے کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کر دیا تھا، جس پر پاکستان نے شدید احتجاج کیا تھا اور عالمی فورمز پر آواز اٹھائی تھی۔
ڈار کا بیان اس بات کی امید دلاتا ہے کہ پاکستان اب بھی سفارتی اور سیاسی ذرائع سے مسئلہ کشمیر کے پرامن حل کی تلاش میں ہے۔
لندن میں موجودگی: عالمی سفارت کاری کا حصہ؟
اسحاق ڈار کی لندن میں موجودگی کو بعض سیاسی تجزیہ نگاروں نے بین الاقوامی ملاقاتوں اور مشاورت کا حصہ قرار دیا ہے۔ لندن ہمیشہ سے پاکستان کی سیاست اور سفارت کاری کے لیے ایک اہم مرکز رہا ہے، جہاں:
- عالمی میڈیا تک رسائی ممکن ہے
- پاکستانی برادری کی بڑی تعداد موجود ہے
- عالمی سفارت کاروں سے ملاقاتیں آسان ہیں
ممکنہ طور پر اس دورے کا مقصد یورپی قیادت سے بات چیت، سرمایہ کاری کے مواقع پیدا کرنا، اور پاکستان کا مثبت امیج پیش کرنا بھی ہو سکتا ہے۔
خارجہ پالیسی کا توازن: سعودی عرب، چین، امریکہ اور بھارت
وفاقی وزیر خارجہ کا بیان اس بات کی بھی عکاسی کرتا ہے کہ پاکستان اپنی خارجہ پالیسی میں توازن قائم رکھنے کی کوشش کر رہا ہے۔ ایک طرف سعودی عرب سے دفاعی معاہدہ، دوسری طرف بھارت سے بات چیت کی خواہش، اور ساتھ ہی عالمی طاقتوں سے تعلقات کا فروغ۔
- پاکستان کی نئی خارجہ حکمتِ عملی کے نکات
- علاقائی استحکام کو اولیت
- اسلامی ممالک کے ساتھ اسٹریٹیجک اتحاد
- معاشی سفارت کاری کو فروغ
- سافٹ امیج بلڈنگ کے اقدامات
- بین الاقوامی فورمز پر مؤثر نمائندگی
سیاسی منظرنامہ اور قومی یکجہتی کی ضرورت
اس تمام گفتگو کے دوران ایک نکتہ بار بار نمایاں رہا: قومی اتحاد اور اداروں کا احترام۔ اسحاق ڈار نے بارہا اس بات پر زور دیا کہ:
- پاکستان اس وقت معاشی، سیاسی اور سلامتی کے چیلنجز سے گزر رہا ہے
- ان چیلنجز سے نکلنے کے لیے سیاسی جماعتوں، عوام، اور ریاستی اداروں کو ایک صفحے پر آنا ہوگا
- انتشار، محاذ آرائی، اور نفرت انگیز بیانیہ ملک کے مفاد کے خلاف ہے
بیانات سے عمل کی طرف قدم ضروری ہے
نائب وزیراعظم اور وفاقی وزیر خارجہ محمد اسحاق ڈار کے بیانات سے واضح ہوتا ہے کہ موجودہ حکومت قومی سلامتی، خارجہ پالیسی، اور بین الاقوامی تعلقات کو انتہائی سنجیدگی سے دیکھ رہی ہے۔
تاہم، ان بیانات کو حقیقت کا روپ دینے کے لیے:
- سفارتی عمل کو تیز کرنا ہوگا
- قومی سیاسی استحکام کو ترجیح دینا ہوگی
- خارجہ پالیسی کے تسلسل کو یقینی بنانا ہوگا
