الفشر میں المناک سانحہ — سوڈان مسجد حملہ میں 13 شہری شہید، درجنوں زخمی
سوڈان میں جاری خانہ جنگی کے دوران ایک اور المناک واقعہ پیش آیا ہے، جہاں سوڈان مسجد حملہ کے نتیجے میں درجنوں معصوم شہری اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ مغربی سوڈان کے شہر الفشر میں واقع ابو شوق مسجد پر گولہ باری کے نتیجے میں کم از کم 13 افراد شہید اور 21 سے زائد زخمی ہوئے۔ اس حملے نے نہ صرف متاثرہ علاقے بلکہ پورے ملک میں خوف و ہراس پھیلا دیا ہے۔
واقعے کی تفصیلات
غیر ملکی ذرائع ابلاغ کے مطابق، حملہ اُس وقت پیش آیا جب مقامی افراد نماز یا پناہ کے لیے مسجد میں موجود تھے۔ رضاکار تنظیم "ابو شوق کیمپ ایمرجنسی روم” کے مطابق، اچانک مسجد پر گولہ باری کی گئی جس سے کئی خاندان متاثر ہوئے۔ مسجد میں پناہ لینے والے بے گھر شہریوں میں خواتین اور بچے بھی شامل تھے۔
رضاکاروں نے بتایا کہ ملبے کو ہٹانے کے بعد 13 لاشیں برآمد ہوئیں جبکہ 21 سے زائد زخمیوں کو نزدیکی اسپتال منتقل کیا گیا۔ اسپتال ذرائع کے مطابق کئی زخمیوں کی حالت تشویشناک ہے۔
اقوام متحدہ کا ردعمل
سوڈان میں اقوام متحدہ کے دفتر برائے رابطہ برائے انسانی امور (OCHA) نے سوڈان مسجد حملہ کی شدید مذمت کی ہے۔ اقوام متحدہ کے ترجمان نے ایک بیان میں کہا:
"الفشر میں ہونے والے یہ حملے انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزی ہیں۔ شہریوں کو نشانہ بنانا ناقابل قبول ہے۔”
اقوام متحدہ نے تمام فریقوں سے مطالبہ کیا کہ وہ شہریوں کی حفاظت کو یقینی بنائیں اور انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امدادی کاموں میں رکاوٹ نہ ڈالیں۔
ریپڈ سپورٹ فورسز (RSF) کی خاموشی
ابھی تک نیم فوجی تنظیم ریپڈ سپورٹ فورسز (RSF) کی جانب سے اس حملے پر کوئی بیان سامنے نہیں آیا۔ تاہم، الفشر کے رہائشیوں کا کہنا ہے کہ حالیہ دنوں میں RSF اور سوڈانی مسلح افواج (SAF) کے درمیان جھڑپیں شدت اختیار کر گئی ہیں۔
مئی 2024 سے جاری جھڑپوں کے باعث ہزاروں افراد اپنے گھروں سے بے دخل ہو چکے ہیں۔ متاثرہ علاقوں میں پانی، بجلی اور خوراک کی قلت نے حالات مزید سنگین بنا دیے ہیں۔
عینی شاہدین کے بیانات
عینی شاہدین کے مطابق مسجد پر حملے کے وقت درجنوں لوگ نماز یا دعا میں مصروف تھے۔ ایک عینی شاہد نے بتایا:
“ہم مسجد میں پناہ لیے بیٹھے تھے کہ اچانک گولے گرنے لگے۔ ہر طرف چیخ و پکار مچ گئی، دھواں بھر گیا اور لوگ زخمی حالت میں زمین پر گر پڑے۔”
اس واقعے کے بعد پورے علاقے میں خوف و غم کی فضا طاری ہے، جبکہ مقامی آبادی کے سینکڑوں افراد نے شہر چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔
امدادی سرگرمیاں جاری
امدادی ٹیموں نے فوری طور پر موقع پر پہنچ کر زخمیوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا۔ ابو شوق ایمرجنسی گروپ کے رضاکاروں کے مطابق، مسجد کے گردونواح میں کئی عمارتیں بھی متاثر ہوئیں۔
زخمیوں کو مقامی اسپتالوں میں ابتدائی طبی امداد دی جا رہی ہے جبکہ کچھ کو دارفور کے بڑے اسپتال منتقل کیا گیا۔ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ زخمیوں میں زیادہ تر بچے اور خواتین شامل ہیں، جن میں سے کچھ کی حالت نازک ہے۔
خانہ جنگی کی پس منظر
سوڈان میں خانہ جنگی اپریل 2023 میں شروع ہوئی جب سوڈانی فوج اور ریپڈ سپورٹ فورسز کے درمیان طاقت کی جنگ چھڑ گئی۔ دارفور سمیت کئی علاقے اس لڑائی کی لپیٹ میں آ چکے ہیں۔
الفشر، دارفور کا سب سے اہم شہر ہے جہاں انسانی ہمدردی کی بنیاد پر ہزاروں پناہ گزین مقیم ہیں۔ سوڈان مسجد حملہ کے بعد امدادی تنظیموں کو خدشہ ہے کہ پناہ گزینوں کی تعداد میں مزید اضافہ ہو گا۔
علاقے میں انسانی بحران
انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ سوڈان میں اب تک لاکھوں افراد بے گھر ہو چکے ہیں، جبکہ خوراک اور ادویات کی شدید قلت ہے۔ الفشر اور دارفور کے کئی کیمپوں میں طبی سہولیات ختم ہو چکی ہیں۔
اقوام متحدہ کے مطابق، اگر لڑائی نہ رکی تو ملک میں قحط جیسی صورتحال پیدا ہو سکتی ہے۔
بین الاقوامی برادری کی تشویش
یورپی یونین، امریکہ، اور افریقی یونین نے بھی سوڈان مسجد حملہ کی مذمت کی ہے اور فوری جنگ بندی کا مطالبہ کیا ہے۔ امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ
“مذہبی مقامات کو نشانہ بنانا بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے، اور ہم تمام فریقین سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ انسانی حقوق کا احترام کریں۔”
سوڈان میں طوفانی بارش کے بعد تباہ کن لینڈ سلائیڈنگ، ایک ہزار افراد لقمہ اجل
سوڈان مسجد حملہ نہ صرف سوڈان کے شہریوں کے لیے ایک سانحہ ہے بلکہ عالمی برادری کے لیے بھی ایک تلخ یاد دہانی ہے کہ جنگ کا اصل خمیازہ ہمیشہ عام لوگ بھگتتے ہیں۔ جب تک سیاسی مذاکرات اور امن بحالی کے اقدامات نہیں کیے جاتے، اس طرح کے المیے بار بار رونما ہوتے رہیں گے۔