اسٹیٹ بینک نے شرح سود 11 فیصد پر برقرار رکھنے کا اعلان: معیشت کی سمت درست، مہنگائی میں وقتی اتار چڑھاؤ ممکن
اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے آئندہ دو ماہ کے لیے مانیٹری پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے شرح سود کو 11 فیصد پر برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس فیصلے کا اعلان گورنر اسٹیٹ بینک جمیل احمد نے کراچی میں پریس کانفرنس کے دوران کیا، جس میں انہوں نے ملکی معاشی اعشاریوں، مہنگائی کی صورتحال، زرمبادلہ کے ذخائر اور مالی سال 2025 کی متوقع اقتصادی نمو پر تفصیل سے روشنی ڈالی۔
معاشی اشاریے مستحکم، شرح سود میں تبدیلی کی ضرورت نہیں
گورنر جمیل احمد نے کہا کہ اس فیصلے سے قبل تمام معاشی اعشاریوں کا بغور جائزہ لیا گیا، جن میں افراطِ زر، زرمبادلہ کے ذخائر، کرنٹ اکاؤنٹ بیلنس، تجارتی اعداد و شمار، حکومتی ادائیگیاں اور بین الاقوامی اقتصادی رجحانات شامل تھے۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے شرح سود میں تبدیلی کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی۔
مہنگائی میں وقتی اضافہ مگر رجحان نیچے کی جانب
گورنر اسٹیٹ بینک نے کہا کہ ملک میں مہنگائی کی شرح اپریل میں اپنی کم ترین سطح پر آ چکی تھی، تاہم مئی اور جون میں اس میں کچھ اضافہ دیکھا گیا جو جزوی طور پر بیس افیکٹ اور توانائی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کا نتیجہ ہے۔ اس وقت مہنگائی کی سالانہ شرح 7.2 فیصد ہے۔
ان کے مطابق مستقبل میں مہنگائی کی شرح 5 سے 7 فیصد کے درمیان رہنے کی توقع ہے، تاہم کچھ مہینوں میں یہ شرح 7 فیصد سے تجاوز بھی کر سکتی ہے، خاص طور پر اگر بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ ہوا۔
زرمبادلہ ذخائر میں بہتری، ترسیلات زر میں نمایاں اضافہ
اسٹیٹ بینک کے گورنر نے کہا کہ ملک کے زرمبادلہ ذخائر میں نمایاں بہتری آئی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ:
"ہم نے رواں مالی سال میں 26 ارب ڈالر کی ادائیگیاں کیں، اس کے باوجود ہمارے ذخائر میں 5 ارب ڈالر کا اضافہ ہوا۔”
انہوں نے کہا کہ ترسیلات زر میں بھی خوش آئند اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، جو رواں مالی سال میں 38 ارب ڈالر سے تجاوز کر گئیں، جو گزشتہ مالی سال کے مقابلے میں 8 ارب ڈالر زیادہ ہیں۔ ترسیلات زر کے باعث کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس رہا، جس سے روپے پر دباؤ کم ہوا اور معیشت میں استحکام آیا۔
ایکسپورٹس میں اضافہ، کرنٹ اکاؤنٹ متوازن
جمیل احمد کے مطابق پاکستان کی برآمدات میں 4 فیصد اضافہ ہوا ہے، جو ملکی تجارتی توازن کے لیے مثبت اشارہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو کنٹرول کرنے کے لیے ایکسپورٹس میں مسلسل اضافہ ناگزیر ہے۔
انہوں نے بتایا کہ مالی سال 2022 میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ جی ڈی پی کے 4 فیصد سے زائد تھا، مگر اب ہم اس خسارے کو بہتر طریقے سے کنٹرول کر رہے ہیں۔ "ہمارے اقدامات کے سبب ملک کی بیرونی ادائیگیوں اور درآمدات کی ضروریات پوری کی گئیں اور زرِ مبادلہ کی پوزیشن مستحکم ہوئی۔”
قرضوں کی ادائیگی میں بہتری، ریٹنگ میں بہتری
گورنر اسٹیٹ بینک نے بتایا کہ پاکستان نے اپنے تمام بین الاقوامی قرضوں کی ادائیگیاں وقت پر کیں۔ اس سے ملک کی کریڈٹ ریٹنگ میں بہتری آئی ہے اور قرضے بھی نسبتاً کم شرح سود پر دستیاب ہیں۔ ان کے بقول دسمبر 2025 تک زرمبادلہ کے ذخائر 15.5 ارب ڈالر اور جون 2026 تک 17.5 ارب ڈالر تک پہنچنے کی توقع ہے۔
مالی سال 2025 کی اقتصادی نمو: 2.7 فیصد
گورنر کے مطابق مالی سال 2025 کے دوران پاکستان کی جی ڈی پی نمو 2.7 فیصد رہی، جو اگرچہ ہدف سے کم ہے، مگر عالمی اور ملکی چیلنجز کو دیکھتے ہوئے یہ اعداد و شمار حوصلہ افزا ہیں۔ زرعی شعبے کی نمو صرف 0.6 فیصد رہی، تاہم آئندہ برس اس شعبے میں بہتری متوقع ہے۔
انہوں نے کہا کہ:
"زرعی پیداوار میں بہتری سے آئندہ مالی سال میں مجموعی قومی پیداوار کی شرح نمو 3.25 سے 4.25 فیصد رہنے کی توقع ہے۔”
توانائی کی قیمتیں اور امپورٹس
اسٹیٹ بینک کے مطابق ملک میں توانائی کی قیمتوں میں مزید اضافے کا امکان ہے، جس سے مہنگائی میں بھی کچھ اضافہ ہو سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ معاشی سرگرمیوں میں بہتری سے پیٹرولیم مصنوعات کی درآمدات بڑھی ہیں، جو ملکی معیشت کی بحالی کی علامت ہے۔
مستقبل کی حکمت عملی
پریس کانفرنس کے اختتام پر گورنر اسٹیٹ بینک نے واضح کیا کہ موجودہ شرح سود برقرار رکھنے کا فیصلہ معیشت کی سمت کو مستحکم رکھنے کے لیے کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگلے فیصلے میں مہنگائی کے رجحانات، مالی استحکام، بیرونی ادائیگیوں کی صورت حال اور عالمی مارکیٹ کے حالات کو مدنظر رکھا جائے گا۔
اسٹیٹ بینک کا شرح سود کو 11 فیصد پر برقرار رکھنے کا فیصلہ ایک محتاط مگر پرعزم معاشی پالیسی کا عکاس ہے۔ ترسیلات، ایکسپورٹس، اور زرمبادلہ ذخائر میں بہتری جیسے مثبت اشاریے یہ ظاہر کرتے ہیں کہ پاکستان کی معیشت استحکام کی طرف گامزن ہے، اگرچہ مہنگائی اور توانائی کی قیمتیں آئندہ کچھ چیلنجز پیدا کر سکتی ہیں۔ البتہ حکومتی معاشی ٹیم کی جانب سے مسلسل مانیٹرنگ اور بروقت فیصلے اس استحکام کو مزید تقویت دے سکتے ہیں۔