63 اے کے تحت نااہلی کا نوٹیفکیشن چیلنج — لاہور ہائی کورٹ میں اہم قانونی دلائل
لاہور ہائی کورٹ میں آج ایک اہم آئینی اور قانونی معاملے پر سماعت ہوئی، جس نے ملکی سیاست اور انتخابی عمل پر گہرا اثر ڈال دیا۔ جسٹس خالد اسحاق کے روبرو یہ درخواستیں پیش کی گئیں، جن میں رکن صوبائی اسمبلی محمد احمد چٹھہ اور محمد احمد خان بچھر کی جانب سے وکیل شہزاد شوکت ایڈووکیٹ نے تفصیلی دلائل دیے۔
پس منظر
یہ کیس الیکشن کمیشن آف پاکستان کے اُس فیصلے کے خلاف دائر کیا گیا ہے، جس کے تحت رکن صوبائی اسمبلی افضل ساہی سمیت چند دیگر اراکین کو آئین کے آرٹیکل 63 اے کے تحت نااہل قرار دے دیا گیا۔ درخواست گزاروں کا مؤقف ہے کہ انہیں سنے بغیر اور مکمل قانونی کارروائی کے بغیر ہی نااہلی کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا گیا، جو کہ آئین اور قانون دونوں کی خلاف ورزی ہے۔
دلائل اور مؤقف
دورانِ سماعت، رکن صوبائی اسمبلی افضل ساہی کی طرف سے ایڈووکیٹ ارشد نذیر مرزا عدالت میں پیش ہوئے، جبکہ محمد احمد چٹھہ اور محمد احمد خان بچھر کی طرف سے شہزاد شوکت ایڈووکیٹ نے کہا:
"الیکشن کمیشن نے آئین کے آرٹیکل 63 اے کے تحت امیدوار کو سننے کا موقع دیے بغیر ہی نااہلی کا فیصلہ جاری کیا، حالانکہ قانون کے مطابق کسی بھی شخص کو سزا یا نااہلی سے قبل مکمل دفاع کا حق دیا جانا ضروری ہے۔”
انہوں نے مزید کہا کہ اسپیکر صوبائی اسمبلی کے پاس نہ تو کوئی ریفرنس آیا، اور نہ ہی انہوں نے الیکشن کمیشن کو کوئی سفارش بھجوائی، اس کے باوجود فیصلہ دے دیا گیا۔
عدالتی مکالمہ
جسٹس خالد اسحاق نے وکیل سے استفسار کیا کہ اگر آپ کی سزا معطل ہو جائے تو کیا آپ اسمبلی کی رکنیت برقرار رکھ سکیں گے؟ اس پر وکیل کا جواب تھا کہ جی ہاں، سزا معطل ہونے کی صورت میں وہ اپنی نشست برقرار رکھ سکتے ہیں۔
ایڈووکیٹ ارشد نذیر مرزا نے ایک اہم نکتہ اٹھاتے ہوئے کہا:
"اگر کوئی شخص قتل کے جرم میں سزا پائے اور اس پر جرم ثابت ہو جائے، تو کیا وہ اسمبلی کا رکن رہ سکتا ہے؟ یہاں اپیل کے 30 دن کا انتظار تک نہیں کیا گیا اور فوراً ہی نااہلی کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا گیا۔”
آئینی اور قانونی پہلو
یہ کیس آئین کے آرٹیکل 63 اے، جو منحرف اراکینِ اسمبلی سے متعلق ہے، کے تحت ایک اہم قانونی بحث پیدا کرتا ہے۔ قانونی ماہرین کے مطابق، نااہلی کے لیے مکمل قانونی عمل، شفاف تحقیقات، اور رکن کو اپنا مؤقف پیش کرنے کا موقع دینا ضروری ہے۔ اس عمل کو نظر انداز کرنے سے فیصلے کی آئینی حیثیت مشکوک ہو جاتی ہے۔
ممکنہ اثرات
اگر عدالت اس نااہلی کے نوٹیفکیشن کو کالعدم قرار دے دیتی ہے، تو اس کا اثر نہ صرف اس کیس کے فریقین پر بلکہ آئندہ انتخابی تنازعات اور آرٹیکل 63 اے کی تشریحات پر بھی پڑے گا۔ دوسری طرف، اگر عدالت فیصلہ برقرار رکھتی ہے تو یہ ایک نظیر کے طور پر کام کرے گا کہ الیکشن کمیشن کو ایسے معاملات میں وسیع اختیارات حاصل ہیں۔
سیاسی ردعمل
سیاسی حلقوں میں اس کیس کو خاصی اہمیت دی جا رہی ہے۔ حکومتی نمائندے اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ قانون سب کے لیے برابر ہے، جبکہ اپوزیشن کا مؤقف ہے کہ یہ سیاسی انتقام کی ایک شکل ہے۔
عوامی دلچسپی اور میڈیا کی توجہ
یہ کیس عوامی سطح پر بھی بڑی دلچسپی کا باعث بنا ہوا ہے کیونکہ اس میں ایک طرف آئین کی بالادستی اور جمہوری اقدار کا سوال ہے، اور دوسری طرف سیاسی کشمکش کا عنصر بھی موجود ہے۔ میڈیا اس سماعت کی لمحہ بہ لمحہ رپورٹنگ کر رہا ہے، اور تجزیہ کار اس کے آئندہ اثرات پر مختلف آراء پیش کر رہے ہیں۔
یہ کیس ایک مثال ہے کہ کس طرح قانونی اور آئینی معاملات سیاست کے ساتھ جڑ جاتے ہیں، اور کس طرح ایک عدالتی فیصلہ پورے سیاسی منظرنامے کو بدل سکتا ہے۔ عدالت کا حتمی فیصلہ آنے والے دنوں میں ملکی سیاست کے لیے نہایت اہم ہوگا، اور یہ طے کرے گا کہ آئندہ ایسے معاملات میں قانون کی تشریح کس طرح کی جائے گی۔
READ MIRE FAQs.
63 اے کے تحت نااہلی کا مطلب کیا ہے؟
یہ آئینی دفعہ کسی رکن کو پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ دینے یا وفاداری بدلنے پر نااہل قرار دینے سے متعلق ہے۔
کیا الیکشن کمیشن بغیر سماعت نااہلی کر سکتا ہے؟
آئینی ماہرین کے مطابق، ہر امیدوار کو سماعت کا حق دینا ضروری ہے۔
اس کیس کا سیاست پر کیا اثر ہو سکتا ہے؟
یہ مستقبل میں ممبرشپ کے قوانین اور آئینی تشریح پر اثرانداز ہو سکتا ہے۔
