ٹرمپ پیوٹن ملاقات : امریکی صدر روسی صدر سے ملاقات کیلئے الاسکا روانہامریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ روسی صدر ولادیمیر پیوٹن سے ملاقات کے لیے الاسکا روانہ، عالمی سطح پر مذاکرات کی تیاری
واشنگٹن : — امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اہم سربراہی اجلاس میں شرکت کے لیے واشنگٹن سے الاسکا روانہ ہو گئے ہیں، جہاں وہ روسی صدر ولادیمیر پیوٹن سے ملاقات کریں گے۔ امریکی نشریاتی ادارے کے مطابق صدر ٹرمپ جوائنٹ بیس اینڈریوز، میری لینڈ سے اپنے خصوصی طیارے ایئر فورس ون کے ذریعے روانہ ہوئے۔ یہ اجلاس عالمی سطح پر نہایت اہم تصور کیا جا رہا ہے کیونکہ اس میں جاری روس-یوکرین کشیدگی کے حل کے لیے اہم فیصلے متوقع ہیں۔
صدر ٹرمپ کے اس اجلاس میں شرکت کا مقصد نہ صرف جنگ بندی کے امکان پر بات چیت کرنا ہے بلکہ اقتصادی اور تجارتی تعلقات کے نئے مواقع بھی زیر بحث آئیں گے۔ امریکی عہدیداروں نے بتایا کہ ٹرمپ پیوٹن ملاقات میں تمام آپشنز میز پر ہوں گے اور اگر صدر ٹرمپ محسوس کریں کہ روسی صدر معاہدے میں سنجیدہ نہیں ہیں تو وہ اجلاس سے واک آؤٹ کرنے کا اختیار بھی رکھیں گے۔
صدر ٹرمپ نے دوران سفر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ سب اقدامات ذاتی مفاد یا شہرت کے لیے نہیں کیے جا رہے بلکہ عالمی امن اور انسانی جانوں کے تحفظ کے لیے کیے جا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا، "میں یہ سب کچھ اپنی صحت یا ذاتی فائدے کے لیے نہیں کر رہا، بلکہ یہ عالمی امن اور انسانی جانوں کے تحفظ کے لیے ضروری ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ اپنے ملک پر توجہ دوں، لیکن کئی زندگیوں کو بچانے کے لیے یہ اقدامات ضروری ہیں۔”
صدر ٹرمپ نے زور دیا کہ اگر ولادیمیر پیوٹن جنگ ختم کرنے پر رضامند نہ ہوئے تو روس کے لیے سخت نتائج مرتب ہوں گے، جن میں اقتصادی اور تجارتی پابندیاں شامل ہیں۔ انہوں نے کہا، "یہ اقدامات سخت ہوں گے اور عالمی سطح پر واضح پیغام دیں گے کہ جارحیت کے نتائج سنگین ہوں گے۔”
جب ایک صحافی نے پوچھا کہ کیا اجلاس میں علاقوں یا سرحدوں کے تبادلوں پر بات ہوگی، تو صدر ٹرمپ نے جواب دیا کہ اس پر ضرور بات ہوگی، لیکن حتمی فیصلہ یوکرین خود کرے گا۔ انہوں نے کہا، "میں یہاں یوکرین کی نمائندگی کے لیے نہیں آیا، لیکن اگر میں صدر نہ ہوتا تو روس پورا یوکرین حاصل کر لیتا، خوش قسمتی سے ایسا نہیں ہونے دیا گیا۔”
صدر ٹرمپ نے روسی صدر کے ساتھ کاروباری امور پر بھی روشنی ڈالی اور کہا کہ ولادیمیر پیوٹن اپنے ساتھ کاروباری شخصیات بھی لا رہے ہیں، جو تجارتی تعلقات بڑھانا چاہتے ہیں، تاہم امریکہ اس وقت تک کسی بھی کاروباری معاہدے پر عمل درآمد نہیں کرے گا جب تک جنگ ختم نہیں ہوتی۔ صدر ٹرمپ نے مزید کہا، "جنگ ختم ہونی چاہیے، قتل و غارت بند ہونی چاہیے اور انسانی جانوں کا تحفظ یقینی ہونا چاہیے۔”
امریکا نے کالعدم بی ایل اے اور مجیدبریگیڈ کو عالمی دہشتگرد تنظیم قرار دیدیا
مذاکرات میں شریک اہم شخصیات
کریملن کی جانب سے اعلان کیا گیا ہے کہ امریکی صدر اور روسی صدر اجلاس کا آغاز مترجمین کی موجودگی میں نجی ملاقات سے کریں گے۔ وائٹ ہاؤس کے مطابق صدر ٹرمپ کے ساتھ 16 اعلیٰ امریکی حکام بھی موجود ہوں گے، جن میں وزیر خارجہ مارکو روبیو، وزیر خزانہ اسکاٹ بیسنٹ، وزیر تجارت ہاورڈ لٹنک، سی آئی اے کے ڈائریکٹر جان ریٹکلف، وائٹ ہاؤس کی پریس سیکریٹری کیرولائن لیوٹ اور امریکی خصوصی ایلچی اسٹیو وٹکوف شامل ہیں۔ تاہم یہ واضح نہیں کہ ان میں سے کون کون روسی وفد کے ساتھ براہِ راست ٹرمپ پیوٹن ملاقات میں شریک ہوگا۔
روس کی طرف سے بھی اعلیٰ سطح کے حکام اجلاس میں شامل ہوں گے، جن میں خارجہ پالیسی کے مشیر یوری اوشاکوف، روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف، وزیر دفاع آندرے بیلوسوف، وزیر خزانہ آنتون سیلوانوف اور اقتصادی امور کے سینئر مذاکرات کار کیرل دمترییف شامل ہیں۔ اقتصادی امور سے متعلق روسی حکام کی شمولیت اس بات کی نشاندہی ہے کہ مذاکرات صرف جنگ کے خاتمے تک محدود نہیں رہیں گے بلکہ اقتصادی اور تجارتی پہلو بھی زیر بحث آئیں گے۔
اہم غیر موجودگی اور یوکرین کا کردار
قابل ذکر ہے کہ یوکرین کے کسی بھی عہدیدار کو اس اجلاس میں شامل نہیں کیا گیا، حالانکہ کیف اور یورپی اتحادیوں نے زور دیا تھا کہ یوکرین کو مذاکرات میں نمائندگی دی جائے۔ امریکی صدر نے اشارہ دیا کہ ان کا مقصد مستقبل میں یوکرینی صدر ولادیمیر زیلنسکی کے ساتھ سہ فریقی ملاقات کے امکان کو بڑھانا ہے تاکہ ثالثی کی صورت میں مسائل کا حل نکالا جا سکے۔

عالمی سطح پر اثرات
یہ سربراہی اجلاس عالمی سطح پر انتہائی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ روس اور امریکہ کے تعلقات نہ صرف یورپ بلکہ پوری دنیا کی سیاسی اور اقتصادی صورتحال پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر اس ٹرمپ پیوٹن ملاقات سے مثبت نتائج حاصل ہوئے تو یہ یوکرین بحران میں فوری کشیدگی کم کرنے اور عالمی سطح پر اقتصادی استحکام کی طرف ایک اہم قدم ثابت ہو سکتا ہے۔
صدر ٹرمپ کے اقدامات اور مقاصد
صدر ٹرمپ نے واضح کیا کہ وہ عالمی قیادت کے ساتھ مذاکرات اس لیے کر رہے ہیں تاکہ جنگ بندی کو یقینی بنایا جا سکے اور انسانی جانوں کے نقصان کو روکا جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ روس کے ساتھ اقتصادی اور تجارتی تعلقات کے معاملے میں امریکہ اس وقت تک کوئی قدم نہیں اٹھائے گا جب تک جنگ کا مسئلہ حل نہیں ہوتا۔
صدر ٹرمپ نے زور دیا، "میں یہ سب کچھ اپنی ذاتی شہرت یا فائدے کے لیے نہیں کر رہا، بلکہ کئی انسانی جانیں بچانے کے لیے یہ اقدامات ضروری ہیں۔ جنگ کے خاتمے کے بعد ہی ہم تجارتی اور اقتصادی امور پر بات کر سکتے ہیں۔”
نتائج اور ممکنہ اثرات
ماہرین کے مطابق ٹرمپ پیوٹن ملاقات اس لحاظ سے بھی اہم ہے کہ دونوں عالمی طاقتوں کے درمیان براہِ راست مذاکرات کا موقع مل رہا ہے، جو کشیدگی کے خاتمے اور ممکنہ معاہدوں کے لیے سنگ میل ثابت ہو سکتا ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر صدر ٹرمپ اس اجلاس میں سنجیدگی سے مذاکرات کریں اور ولادیمیر پیوٹن بھی مثبت ردعمل دیں تو یوکرین اور یورپی خطے میں کشیدگی میں کمی ممکن ہے، جبکہ ناکامی کی صورت میں اس کے منفی اثرات بھی عالمی سطح پر مرتب ہو سکتے ہیں۔
READ MORE FAQs”
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ الاسکا روانہ ہو گئ
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ الاسکا روانہ ہو گئے تاکہ روسی صدر ولادیمیر پیوٹن سے اہم سربراہی اجلاس میں ملاقات کریں، جس میں روس-یوکرین کشیدگی اور اقتصادی تعلقات پر بات ہوگی۔
صدر ٹرمپ الاسکا کیوں جا رہے ہیں؟
وہ روسی صدر پیوٹن سے ملاقات اور عالمی سطح پر روس-یوکرین کشیدگی پر مذاکرات کے لیے جا رہے ہیں۔
اس اجلاس میں کون کون شریک ہوگا؟
امریکی وفد میں وزیر خارجہ، وزیر خزانہ، وزیر تجارت، سی آئی اے ڈائریکٹر اور دیگر اعلیٰ حکام شامل ہیں۔ روسی وفد میں لاوروف، یوری اوشاکوف، وزیر دفاع اور اقتصادی مشیر شامل ہوں گے۔
یوکرین کے نمائندے اجلاس میں شامل ہیں؟
نہیں، یوکرین کو اجلاس میں نمائندگی نہیں دی گئی، تاہم مستقبل میں سہ فریقی ملاقات کے امکانات ہیں۔
مذاکرات کا مقصد کیا ہے؟
روس-یوکرین کشیدگی کو کم کرنا، جنگ بندی پر بات چیت، اور اقتصادی و تجارتی تعلقات کے نئے مواقع تلاش کرنا۔
کیا امریکی کاروباری معاہدے بھی زیر بحث آئیں گے؟
ہاں، مگر امریکہ صرف تبھی کسی معاہدے پر عمل درآمد کرے گا جب جنگ بندی ہو جائے اور انسانی جانوں کا تحفظ یقینی ہو۔