پاکستان میں پولیو کیسز کی تعداد 21 ہوگئی، لوئر کوہستان اور بدین میں مزید 2 متاثرہ بچے سامنے آگئے
پولیو کے خلاف جنگ ابھی باقی ہے: پاکستان میں دو نئے کیسز کی تصدیق، سال 2025 میں مجموعی تعداد 21 ہوگئی
پاکستان میں پولیو وائرس ایک بار پھر خطرے کی گھنٹی بجا رہا ہے، جب نیشنل ایمرجنسی آپریشن سینٹر (NEOC) نے خیبر پختونخوا کے ضلع لوئر کوہستان اور سندھ کے ضلع بدین سے پولیو کے دو نئے کیسز کی تصدیق کی ہے۔ ان دونوں واقعات نے نہ صرف صحت عامہ کے ماہرین کو تشویش میں مبتلا کر دیا ہے بلکہ والدین اور معاشرے کے لیے بھی ایک لمحہ فکریہ پیدا کر دیا ہے کہ کیا ہم واقعی اس موذی مرض سے نجات کی راہ پر گامزن ہیں؟
کوہستان لوئر: چھ سالہ بچی میں پولیو کی تصدیق
خیبر پختونخوا کے ضلع کوہستان لوئر کے علاقے پٹن میں ایک چھ سالہ بچی میں پولیو وائرس کی موجودگی کی تصدیق ہوئی ہے۔ بچی کو جسمانی کمزوری اور چلنے پھرنے میں مشکلات کے باعث اسپتال لایا گیا جہاں ٹیسٹ کے بعد پولیو وائرس کی موجودگی سامنے آئی۔ یہ کیس صوبے میں رواں سال کا 13 واں کیس ہے، جو اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ وائرس اب بھی صوبے کے مختلف حصوں میں موجود ہے اور پھیلنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
خیبر پختونخوا میں پولیو کی مجموعی صورتحال
محکمہ صحت کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق:
- بنوں اور لکی مروت سے 3، 3 کیسز رپورٹ ہوئے
- ٹانک اور شمالی وزیرستان سے 2، 2 کیسز سامنے آئے۔
- ڈی آئی خان، تورغر اور اب لوئر کوہستان سے 1، 1 کیس کی تصدیق ہو چکی ہے۔
۔یہ اعداد و شمار اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ خیبر پختونخوا کے جنوبی اضلاع اب بھی پولیو کے حوالے سے انتہائی حساس اور خطرناک زونز میں شامل ہیں، جہاں ویکسینیشن کی شرح کم اور رسائی کے مسائل زیادہ ہیں۔
سندھ کے ضلع بدین سے ایک نیا کیس
دوسری جانب، سندھ کے ضلع بدین سے بھی پولیو کا ایک کیس رپورٹ ہوا ہے۔ اگرچہ سندھ میں اس سال پولیو کے کیسز کی تعداد نسبتاً کم رہی ہے، لیکن بدین جیسے علاقے میں پولیو وائرس کا دوبارہ سامنے آنا صحت عامہ کے لیے ایک سنگین خطرہ ہے۔
پاکستان میں سال 2025 کے دوران مجموعی طور پر 21 پولیو کیسز
ان نئے کیسز کی تصدیق کے بعد پاکستان میں رواں سال (2025) پولیو کیسز کی مجموعی تعداد 21 ہو چکی ہے۔ یہ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ اگرچہ پاکستان نے گزشتہ چند سالوں میں پولیو کے خاتمے کے لیے زبردست کوششیں کی ہیں، لیکن وائرس اب بھی ہمارے درمیان موجود ہے اور معمولی غفلت سے بڑے پیمانے پر پھیل سکتا ہے۔
پولیو: ایک لاعلاج مگر قابلِ بچاؤ مرض
نیشنل ایمرجنسی آپریشن سینٹر (NEOC) نے ایک بار پھر اس بات پر زور دیا ہے کہ پولیو ایک لاعلاج مرض ہے اور اس کا واحد حل بروقت ویکسینیشن ہے۔ جب ایک بار پولیو وائرس کسی بچے کو متاثر کرتا ہے تو وہ زندگی بھر کے لیے معذوری کا شکار ہو سکتا ہے۔ اس لیے بچاؤ کے لیے واحد راستہ یہی ہے کہ بچوں کو بروقت پولیو کے قطرے پلائے جائیں۔
پولیو کی علامات
والدین کے لیے ضروری ہے کہ وہ پولیو کی علامات سے باخبر ہوں، جن میں شامل ہیں:
- اچانک بخار
- جسم میں درد، خصوصاً ٹانگوں میں
- ہاتھ یا پاؤں کی حرکت میں کمی
- مستقل کمزوری یا معذوری
پولیو اکثر خاموشی سے حملہ کرتا ہے اور جب علامات ظاہر ہوتی ہیں تو بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ احتیاطی ویکسینیشن سب سے مؤثر اور ضروری ذریعہ ہے۔
یکم ستمبر سے انسداد پولیو مہم کا آغاز
NEOC کے مطابق، ملک بھر میں انسدادِ پولیو کی خصوصی مہم یکم ستمبر 2025 سے شروع کی جا رہی ہے۔ اس مہم کے تحت لاکھوں بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلائے جائیں گے۔ والدین سے گزارش کی گئی ہے کہ وہ اپنے بچوں کو نہ صرف پولیو کے قطرے پلائیں بلکہ دیگر حفاظتی ٹیکوں کا کورس بھی بروقت مکمل کروائیں تاکہ بچوں کو مکمل تحفظ فراہم کیا جا سکے۔
والدین کا کردار سب سے اہم
یہ حقیقت اب ہر سطح پر تسلیم کی جا چکی ہے کہ پولیو کے خاتمے کے لیے والدین کا کردار سب سے کلیدی ہے۔ جب تک ہر والدین اس بات کو اپنی ذمہ داری نہ سمجھیں کہ ان کے بچے کو بروقت ویکسین دی جائے، تب تک پولیو کو جڑ سے ختم کرنا ممکن نہیں۔
والدین کے لیے اہم پیغام:
- پولیو کے ہر قطرے میں بچے کا مستقبل محفوظ ہے۔
- انسداد پولیو ٹیموں سے تعاون کریں۔
- اگر کوئی ٹیم دروازے پر آئے تو قطرے ضرور پلائیں۔
- اگر بچہ مہم کے دنوں میں گھر پر نہیں، تو قریبی مرکز صحت سے رجوع کریں۔
چیلنجز اور رکاوٹیں
پولیو کے خلاف جاری جنگ میں کئی چیلنجز بھی ہیں:
- غلط فہمیاں: کچھ علاقوں میں اب بھی پولیو ویکسین کے بارے میں منفی خیالات موجود ہیں۔
- سیکیورٹی مسائل: خاص طور پر خیبر پختونخوا کے کچھ اضلاع میں انسداد پولیو ٹیموں کو تحفظ کے مسائل درپیش ہیں۔
- رسائی کے مسائل: پہاڑی یا دور دراز علاقوں میں ٹیموں کی رسائی مشکل ہوتی ہے۔
- محدود آگاہی: والدین کی بڑی تعداد ابھی بھی ویکسین کی اہمیت سے پوری طرح آگاہ نہیں۔
- تاہم حکومت، محکمہ صحت اور بین الاقوامی ادارے ان تمام چیلنجز سے نمٹنے کے لیے سرگرم ہیں۔
ایک محفوظ پاکستان کی جانب قدم
پاکستان ان چند ممالک میں شامل ہے جہاں پولیو اب بھی موجود ہے، جن میں افغانستان بھی شامل ہے۔ لیکن اگر ہم نے قومی سطح پر اتحاد، شعور اور مستقل مزاجی کے ساتھ پولیو کے خلاف جدوجہد جاری رکھی، تو وہ دن دور نہیں جب پاکستان کو پولیو فری ملک قرار دیا جا سکے گا۔
NEOC اور محکمہ صحت کی اپیل ہے کہ:
“آیئے، اپنے بچوں کو پولیو کے خلاف تحفظ دیں۔ یہ صرف ایک قطرہ نہیں، بلکہ زندگی بھر کی حفاظت ہے۔”
پاکستان میں دو نئے پولیو کیسز کی تصدیق اس بات کی واضح علامت ہے کہ یہ جنگ ابھی مکمل طور پر جیتی نہیں گئی۔ 2025 میں اب تک 21 پولیو کیسز کا رپورٹ ہونا اس بات کا ثبوت ہے کہ اگر ہم نے غفلت برتی تو یہ وائرس دوبارہ سر اٹھا سکتا ہے۔
وقت ہے کہ ہم ایک قوم بن کر، ہر شہر، ہر گاؤں، ہر محلے میں پولیو کے خلاف متحد ہو جائیں۔ بچوں کا مستقبل محفوظ بنانا ہمارا فرض بھی ہے اور ذمہ داری بھی۔
READ MORE FAQs.
پاکستان میں 2025 کے دوران پولیو کے کتنے کیسز رپورٹ ہوچکے ہیں؟
مجموعی طور پر 21 کیسز رپورٹ ہوچکے ہیں
خیبر پختونخوا میں پولیو کے کتنے کیسز سامنے آئے ہیں
خیبر پختونخوا میں اب تک 13 کیسز رپورٹ ہوچکے ہیں۔
پولیو سے بچاؤ کا واحد حل کیا ہے؟
صرف پولیو ویکسین ہی پولیو سے مکمل تحفظ فراہم کر سکتی ہے۔


Comments 1