غزہ جنگ بندی :حماس نے جنگ بندی منصوبہ قبول کر لیا — 22 ماہ سے جاری غزہ جنگ کے خاتمے کی امیدیں روشن
غزہ : — فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس نے غزہ میں جنگ بندی کے نئے منصوبے کو باضابطہ طور پر قبول کر لیا ہے اور اس حوالے سے اپنا جواب ثالثوں یعنی مصر اور قطر کے حوالے کر دیا ہے۔ اس پیش رفت کے بعد 22 ماہ سے زائد عرصے سے جاری خونی جنگ کے اختتام کی امیدیں ایک بار پھر جنم لینے لگی ہیں۔
حماس کے سینئر رہنما باسم نعیم نے سوشل میڈیا پر جاری اپنے بیان میں کہا کہ تنظیم نے ثالثوں کی پیش کردہ نئی تجویز کو قبول کر لیا ہے اور اس پر کسی ترمیم کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔ ان کا کہنا تھا:
"ہم نے اپنا جواب جمع کرا دیا ہے، اور ثالثوں کی نئی تجویز سے اتفاق کر لیا ہے۔ ہم اللہ سے دعا کرتے ہیں کہ وہ ہمارے عوام پر مسلط کی گئی اس طویل جنگ کو ختم کرے۔”
حماس کے ذرائع کے مطابق اس مرتبہ تنظیم نے غیر مشروط طور پر امن غزہ جنگ بندی منصوبے کو تسلیم کیا ہے، تاکہ فلسطینی عوام پر جاری کرب ناک حالات کا خاتمہ ہو اور دنیا کو یہ پیغام دیا جا سکے کہ فلسطینی امن کے خواہاں ہیں۔
غزہ جنگ بندی منصوبہ کی اہم شقیں
مصری ریاستی میڈیا القاہرہ کے مطابق اس منصوبے کے تحت:
ابتدائی طور پر 60 روزہ جنگ بندی ہوگی۔
جنگ بندی کے دوران جزوی طور پر یرغمالیوں کی رہائی عمل میں آئے گی۔
کچھ فلسطینی قیدیوں کو بھی رہا کیا جائے گا۔
غزہ میں انسانی امداد اور اشیائے خورونوش کے بڑے پیمانے پر داخلے کی اجازت دی جائے گی۔
غزہ جنگ بندی منصوبہ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب چند ہفتے قبل اسرائیلی سیکیورٹی کابینہ نے غزہ شہر اور قریبی مہاجر کیمپوں میں فوجی کارروائیوں کو مزید تیز کرنے کی منظوری دی تھی، جس پر عالمی سطح پر سخت تنقید سامنے آئی تھی۔
اسرائیل کا ردعمل اور عالمی دباؤ
حماس کے جواب کے بعد اب معاملہ اسرائیل کے کورٹ میں ہے، تاہم اسرائیلی حکومت کی جانب سے تاحال کوئی باضابطہ ردعمل سامنے نہیں آیا۔ مصری حکام کے مطابق تجویز کو اسرائیل کے حوالے کر دیا گیا ہے اور امید ظاہر کی جا رہی ہے کہ آئندہ چند روز میں اس پر حتمی فیصلہ ہو سکے گا۔
دوسری جانب امریکا اور یورپی ممالک کی جانب سے بھی اسرائیل پر دباؤ بڑھایا جا رہا ہے کہ وہ غزہ جنگ بندی کو تسلیم کرے تاکہ انسانی بحران مزید نہ بڑھے۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے حالیہ بیان میں کہا کہ "غزہ میں انسانی المیہ اپنے بدترین مرحلے پر ہے، فوری جنگ بندی کے بغیر یہ خطہ مکمل تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے۔”
غزہ میں امداد کے انتظار میں اسرائیلی فائرنگ سے 68 فلسطینی شہید: انسانی بحران سنگین
انسانی بحران اور اعداد و شمار
گزشتہ 22 ماہ کے دوران اسرائیلی جارحیت کے نتیجے میں غزہ میں 62 ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں جن میں بڑی تعداد عام شہریوں، بچوں اور خواتین کی ہے۔ اسپتالوں، اسکولوں، پناہ گزین کیمپوں اور مساجد پر بھی بمباری کی گئی ہے جس کی وجہ سے لاکھوں افراد بے گھر اور زخمی ہوئے ہیں۔
اکتوبر 2023 کے حملے کے بعد حماس نے 251 اسرائیلیوں کو یرغمال بنایا تھا، جن میں سے 49 تاحال غزہ میں موجود ہیں۔ اسرائیلی فوج کے مطابق ان میں سے 27 یرغمالیوں کو مردہ قرار دیا جا چکا ہے۔
بین الاقوامی ردعمل
ایمنسٹی انٹرنیشنل، ہیومن رائٹس واچ اور اقوام متحدہ کے ماہرین پہلے ہی اسرائیل کی کارروائیوں کو "نسل کشی” قرار دے چکے ہیں۔ کئی مغربی ممالک میں عوامی احتجاج اور اسرائیل کے خلاف مظاہروں میں اضافہ ہوا ہے۔ واشنگٹن، لندن، پیرس، برلن اور ٹورنٹو سمیت کئی شہروں میں لاکھوں افراد سڑکوں پر نکل کر فلسطینی عوام کے حق میں اور اسرائیلی جارحیت کے خلاف آواز بلند کر رہے ہیں۔
سیاسی تجزیہ کاروں کی رائے
ماہرین کے مطابق اگر اسرائیل اس غزہ جنگ بندی منصوبے کو تسلیم کرتا ہے تو یہ نہ صرف موجودہ جنگ کے خاتمے کا باعث بن سکتا ہے بلکہ مستقبل کے کسی جامع امن معاہدے کی بنیاد بھی رکھ سکتا ہے۔ تاہم خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اسرائیلی قیادت، خاص طور پر وزیراعظم نیتن یاہو، پر دائیں بازو کی سیاسی جماعتوں اور عسکری لابی کا دباؤ ہے جو جنگ بندی کے خلاف ہیں۔
دوسری جانب فلسطینی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ منصوبہ "غزہ میں فوری انسانی ریلیف” کے لیے ایک اہم قدم ہے لیکن اصل مسئلہ فلسطین کی آزادی، مقبوضہ علاقوں سے اسرائیلی فوج کی واپسی اور آزاد فلسطینی ریاست کے قیام سے جڑا ہوا ہے۔
حماس اور عوامی توقعات
غزہ میں عام شہریوں نے حماس کے غزہ جنگ بندی فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے اور اسے "امن کی ایک کرن” قرار دیا ہے۔ شہریوں کا کہنا ہے کہ "اگرچہ غزہ جنگ بندی منصوبہ جنگ کے مکمل خاتمے کی ضمانت نہیں دیتا لیکن کم از کم فوری قتل و غارت روکنے کا باعث بنے گا۔”
اب تمام نگاہیں اسرائیل پر ہیں کہ وہ ثالثوں کی جانب سے دی گئی اس تجویز کو قبول کرتا ہے یا نہیں۔ اگر اسرائیل اس منصوبے کو تسلیم کر لیتا ہے تو یہ گزشتہ دو برسوں کی سب سے بڑی پیش رفت ہوگی، اور غزہ کے مظلوم عوام کے لیے ایک نئی امید کی کرن ثابت ہو سکتی ہے۔ تاہم اگر اسرائیل نے انکار کیا تو خطے میں مزید بدامنی اور خونریزی بڑھنے کا خدشہ ہے۔
READ MORE FAQs”
حماس نے جنگ بندی منصوبہ کیوں قبول کیا؟
فلسطینی عوام پر جاری انسانی بحران اور خونریزی روکنے کے لیے حماس نے غیر مشروط طور پر یہ منصوبہ قبول کیا۔
اس منصوبے کی اہم شقیں کیا ہیں؟
60 روزہ جنگ بندی، جزوی یرغمالیوں کی رہائی، فلسطینی قیدیوں کی رہائی اور غزہ میں انسانی امداد کی فراہمی شامل ہیں۔
اسرائیل کا ردعمل کیا ہے؟
اسرائیل کی جانب سے تاحال کوئی باضابطہ ردعمل نہیں آیا، تاہم عالمی دباؤ بڑھ رہا ہے کہ وہ اس منصوبے کو تسلیم کرے۔
اس جنگ بندی سے فلسطینی عوام کو کیا فائدہ ہوگا؟
فوری قتل و غارت رکنے کے ساتھ ساتھ انسانی امداد کی فراہمی ممکن ہوگی اور بے گھر شہریوں کو ریلیف ملے گا۔
عالمی برادری نے اس پیش رفت کو کس طرح دیکھا؟
اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے اسے مثبت قدم قرار دیا ہے جبکہ عوامی احتجاجات میں جنگ بندی کا مطالبہ تیز ہوا ہے۔
Comments 1