تحریر:شاہنواز خان
تاریخ انسانی گواہ۔ ایک ہی صدا بار بار سنائی دیتی ہے۔۔۔’’ اے انسان! تو کتنا کمزور۔تیرے سب بندوبست کمزور۔ تیری تدابیر کمزور۔ تیرا سب کچھ لمحوں میں بکھر سکتا ہے‘‘
طوفان نوحؑ انسان کی سرکشی پر آسمانی جواب۔۔۔’’جب زمین گناہوں سے بھر گئی۔جب دلوں میں گھمنڈ غرور نافرمانی نے ڈیرے ڈال لیے۔ تب رب کریم نے پانی کو حکم دیا۔ تباہ کن سیلاب تا حد نگاہ پانی ہی پانی۔۔ کوہ اراراط(جودی پہاڑ) کی چوٹی تک سرکش پانی کی لہریں۔۔۔ سیلاب نے ظالموں کونگل لیا۔۔ نوحؑ کی کشتی رحمت کا مینار بنی ۔۔۔باقی سب موجوں کے سپرد۔۔۔
بنی اسرائیل کی تاریخ بھی پانی کے عذاب کی گواہ۔ وہ جب رب کے فرمان سے منہ موڑتے تو کبھی طوفان، کبھی سیلاب ان کی بستیاں بہا لے جاتے۔ یونانی روایات میں بھی "دیئوکلین کا سیلاب” اسی حقیقت کی بازگشت ہے۔ یہ سیلاب ایک مشہور داستان ہے، جس میں بتایا گیا ہے کہ زئوس نے بنی نوع انسان کی سرکشی دیکھ کر ایک عظیم طوفان برپا کیا جس میں اکثر انسان فنا ہوگئے۔جدید دور کے المیے1931ء کا چین کا سیلاب 30لاکھ روحوں کو بہا لے گیا، 1970ء کے بنگال کے طوفان نے کروڑوں خواب روند ڈالے۔۔5لاکھ انسان سیلابی ریلوں کی نذر
، اور پھر پاکستان کے 2010ء اور 2022ء کے سیلاب… یہ سب انسان کے سامنے ایک ہی حقیقت رکھ دیتے ہیں کہ’’ سائنس و ٹیکنالوجی کے باوجود انسان رب کے حکم کے آگے بے بس۔۔۔آج پاکستان کو پانی کے قہر کا سامنا ۔ گاؤں اجڑ رہے ہیں۔۔ کھیت بہہ رہے ہیں۔۔ شہر پناہ ڈھونڈ رہے ہیں۔ یہ لمحہ ہے عاجزی اور رجوع الی اللہ کا۔ جب بستیاں ڈوب گئیں، مائیں بچوں کو بچانے کی دہائیاں دیتی رہیں، اور کھیت، مویشی، گھر سب پانی کے سپرد ہو گئے۔
آسمان کی صدا ہے۔۔یہ سب حادثے نہیں، نشانیاں ہیں۔قرآن کہتا ہے: "ہم اپنی نشانیوں سے ڈراتے ہیں تاکہ لوگ رجوع کریں”۔یہ آفات کہتی ہیں:اے انسان! تیری تدابیر بیکار، تیرے قلعے کمزور،جب رب کا حکم آ جائے تو نہ کوئی بند روک سکتا ہے، نہ کوئی دیوار تھام سکتی ہے۔
خیبرپختونخواہ کی سرسبز وادیوں اور پرشکوہ پہاڑوں پر جب بادل پھٹے، تو گویا فطرت نے اپنا غضب دکھا دیا۔ آسمان سے برسنے والی وہ موسلا دھار بارش، جو کبھی رحمت کہلاتی تھی، اس روز قیامت کا پیش خیمہ بنی۔ لمحوں میں ندی نالے دریا بن گئے، اور سکون سے سانس لیتی بستیاں پانی کی گرج میں دفن ہو گئیں۔ پہاڑوں سے اُترتے سیلابی ریلاں، صدیوں پرانی زمین کو چیرتے، ہر شے کو اپنے ساتھ بہا لے گئے۔ مٹی کے گھر، کھیتوں کی ہریالی، بچوں کی کلکاریاں اور بزرگوں کی دعائیں سب کچھ جیسے ایک سسکتی تصویر میں قید ہو گیا۔ ہر طرف کرب کی ایک خاموش لہر دوڑ گئی؛ کہیں کوئی ماں اپنے لعل کو پکارتی رہی، کہیں کسی بزرگ کا عصا ملبے تلے گم ہو گیا۔ خیبرپختونخواہ کی خوبصورت سرزمین، اس روز درد کی تصویر بن گئی جہاں قدرت کی جلالی گونج نے انسان کو اس کی کمزوری کا احساس دلایا، اور آنکھوں نے وہ منظر دیکھے جو برسوں یاد رہیں گے۔
قیامت خیز لمحے میں جب بادلوں نے پہاڑوں پر اپنا بوجھ انڈیل دیا، تو ہر سمت بس تباہی کی دہائیاں سنائی دینے لگیں۔ بونیر،باجوڑ،دیر، سوات، مانسہرہ اور صوابی کی پُرسکون وادیوں میں زندگی پل بھر میں اجڑ گئی۔ چھوٹے چھوٹے پل، جو صدیوں سے لوگوں کو جوڑتے آئے تھے، پانی کی بےرحم موجوں میں بہہ گئے۔ درخت جڑوں سے اکھڑ گئے، سڑکیں گم ہو گئیں، اور گھروں کی چھتیں آسمان سے پوچھتی رہ گئیں کہ یہ کیسا عذاب نازل ہوا۔ لوگ سر پر قرآن رکھ کر محفوظ پناہوں کی تلاش میں نکلے، مگر ہر سمت سیلاب کی گرج تھی، اور پانی میں ڈوبی دعاؤں کا شور
جب بادل پھٹے، تو جیسے آسمان نے اپنا سینہ چاک کر دیا ہو،کالی گھٹاؤں کی کوکھ سے موت برسی۔پل بھر میں نیلگوں افق پر قہر کی چادر تان دی گئی،اور وہ بوندیں جو کبھی زندگی کی نوید ہوا کرتی تھیں،آج آندھی، سیلاب اور تباہی کا پیام بن گئیں۔پہاڑوں کی چپ چاپ گود سے چیختے پانی کے ریلاں نکلے،جو اپنے ساتھ بستیوں کے خواب، گھروں کے چراغ اور آنگن کی ہنسی بہا لے گئے۔ہر جانب پانی ہی پانی تھا پر پیاس ایسی کہ روحیں سسک اٹھیں۔زمین پر ایک ہنگامِ ماتم برپا ہو چکا تھا،در و دیوار، جو کل تک محافظ تھے، آج ملبے کے ڈھیر بنے خاموش تماشائی بنے کھڑے تھے۔کسی ماں کی آغوش خالی ہو گئی، کسی باپ کا سہارا بہہ گیا،اور کہیں معصوم ہاتھ، مٹی میں دفن ہو گئے، جنہوں نے کبھی تتلیاں پکڑی تھیں۔تباہی کا یہ منظر صرف پانی کا شور نہ تھا،یہ وقت کی چیخ تھی، زمین کی فریاد، اور انسانیت کا امتحان۔بادل برسا ضرور، مگر ساتھ ہی وہ دکھ بھی برسا گیاجس کی نمی نسلوں تک دلوں میں باقی رہے گی۔
یہ لمحہ ہے سوچنے کا کہ کیا ہم ان آفات کو صرف حادثہ سمجھیں یا اللہ کی صدا؟یہ وقت ہے عاجزی اختیار کرنے کا، اجتماعی توبہ کا، اور ساتھ ساتھ عملی قدم اٹھانے کا— مضبوط منصوبہ بندی، ڈیموں کی تعمیر، اور انسانی ہمدردی کے نظام کی بحالی کا۔کیونکہ جب زمین اور آسمان کی قوتیں اکٹھی ہو جائیں تو ایک ہی سہارا باقی رہ جاتا ہے:”وہی ذات، جو طوفان میں کشتی کو پار لگاتی ہے۔”
اے ربّ کریم!تو ہی وہ ذات ہے جس نے طوفانِ نوحؑ میں کشتی کو بچایا،تو ہی بنی اسرائیل کے عذاب کو عبرت بنایا،تو ہی ہے جو آج بھی ہمارے سیلاب زدہ وطن کو سنبھال سکتا ہے۔اے اللہ! ہمیں غرور اور غفلت سے بچا،ہمیں اپنی رحمت کے سائے میں پناہ دے،ہمارے دیس کو پانی کی تباہی سے محفوظ فرما،ہمارے کھیتوں کو ہریالی اور بستیوں کو خوشحالی عطا فرما۔اور ہمیں یہ شعور دے کہ ہم تیرے بھروسے کے ساتھ ساتھ اپنی ذمہ داریاں بھی ادا کریں،یقین بھی تجھ پر ہو اور تدبیر بھی تیرے نام پر۔
آمین یا رب العالمین