گزشتہ دو روز سے جاری طوفانی بارشوں کے بعد کراچی میں مزید بارشوں کا الرٹ نے کراچی کو ایک بار پھر مسائل کے گرداب میں دھکیل دیا ہے۔
سڑکیں زیرِ آب، نشیبی علاقے ندی نالوں کا منظر پیش کر رہے ہیں، بجلی و انٹرنیٹ سروس معطل ہے، ٹریفک جام نے زندگی مفلوج کردی، اور سب سے بڑھ کر 15 قیمتی جانیں مختلف حادثات میں ضائع ہوئیں۔ شہری حلقے، سیاسی جماعتیں اور سماجی تنظیمیں اب یک زبان ہو کر کراچی آفت زدہ علاقہ قرار دینے کا مطالبہ کر رہی ہیں۔
محکمہ موسمیات کے مطابق کراچی میں 245 ملی میٹر بارش ریکارڈ کی گئی، جو حالیہ برسوں کی سب سے زیادہ بارشوں میں شمار ہوتی ہے۔ اس بارش نے شہری نظام کی ناقص کارکردگی اور سندھ حکومت کے بلند و بانگ دعوؤں کا پول کھول دیا۔ درجنوں سڑکیں کئی کئی فٹ پانی میں ڈوب گئیں۔ گھروں میں پانی داخل ہوا، گاڑیاں پھنس گئیں، اور ہزاروں شہری رات سڑکوں پر گزارنے پر مجبور ہوگئے۔
انسانی المیہ اور جانی نقصان
بارش کے دوران مختلف حادثات میں 15 افراد جاں بحق ہوئے۔
گلستانِ جوہر میں گھر کی دیوار گرنے سے چار افراد زندگی کی بازی ہار گئے۔
شاہ فیصل کالونی اور ڈیفنس میں کرنٹ لگنے سے کئی نوجوان جاں بحق ہوئے۔
گرومندر کے قریب نالے میں ڈوبنے والے ایک شخص کی لاش بھی نکالی گئی۔
اورنگی ٹاؤن میں ایک بچہ بارش کے پانی کے باعث جاں بحق ہوا۔
یہ سانحات صرف اعدادوشمار نہیں، بلکہ ہر خاندان کے لیے ناقابلِ تلافی نقصان ہیں۔
ایم کیو ایم کا احتجاج اور مطالبہ
ایم کیو ایم پاکستان کے رہنما ڈاکٹر فاروق ستار نے متاثرہ علاقوں کے دورے کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کراچی کو فوری طور پر "آفت زدہ علاقہ” قرار دینے کا مطالبہ کیا۔ ان کا کہنا تھا:
"کراچی کو جان بوجھ کر صوبے سے الگ تھلگ رکھا گیا ہے۔ اگر نالوں کی بروقت صفائی کی جاتی تو 40 ملی میٹر گنجائش والے نالے بھی یہ بارش برداشت کر لیتے۔ صرف وزیرِاعلیٰ کا وزیراعظم کو فون کردینا کافی نہیں، ہمیں بھی اعتماد میں لینا ہوگا۔”
سندھ حکومت اور بلدیاتی ادارے زیرِ سوال
ڈاکٹر فاروق ستار کا مؤقف ہے کہ سندھ حکومت نے 22 ہزار ارب روپے وسائل کے باوجود کراچی کے بنیادی مسائل حل نہیں کیے۔ ان کے بقول، گزشتہ روز کے واقعات نے حکومت کے تمام دعوے بہا دیے۔ شہری سوال کر رہے ہیں کہ نقصان کا ازالہ کون کرے گا؟
کراچی میں بارش کے بعد ٹریفک جام، کئی سڑکیں پانی میں ڈوب گئیں
میئر کراچی کی اپیل
میئر کراچی مرتضیٰ وہاب نے پریس کانفرنس میں اعتراف کیا کہ بارش کے بعد شہریوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ انہوں نے شہریوں سے اپیل کی کہ بارش کے دوران گھروں میں رہیں اور نقل و حرکت سے گریز کریں۔ ان کا کہنا تھا:
"245 ملی میٹر بارش نے شہر کی استعداد کو چیلنج کیا ہے۔ اگر نکاسی آب بہتر ہو تو 40 ملی میٹر تک بارش آسانی سے سنبھالی جا سکتی ہے۔”
بجلی اور انٹرنیٹ کی بندش
بارش کے بعد شہر کے بڑے حصے میں بجلی اور انٹرنیٹ سروس معطل رہی۔
گلستان جوہر، گلشن اقبال، کورنگی، محمود آباد، اختر کالونی، منظور کالونی، ڈیفنس ویو اور ملیر کے علاقوں میں کئی گھنٹے بجلی بند رہی۔
کے الیکٹرک نے بجلی بحالی کا دعویٰ کیا، لیکن شہریوں نے اسے "جھوٹا دعویٰ” قرار دیا۔
سڑکوں اور ٹریفک کا نظام مفلوج
اہم شاہراہوں پر پانی جمع ہونے سے شدید ٹریفک جام ہوا۔ شہری دفاتر اور کاروباری مراکز نہ پہنچ سکے۔ کئی مقامات پر گاڑیاں پانی میں ڈوب گئیں، سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوئیں، اور نئی تعمیر شدہ شاہراہوں پر بھی بڑے بڑے گڑھے پڑ گئے۔

فوج اور رینجرز کی مدد
پاک فوج اور رینجرز کے اہلکار رات گئے تک شاہراہوں پر موجود رہے۔ انہوں نے گاڑیوں کو دھکیل کر کنارے کیا، پانی میں پھنسے شہریوں کو نکالا، اور ٹریفک بحالی میں کردار ادا کیا۔
مستقبل کے خدشات
محکمہ موسمیات کراچی میں مزید بارشوں کا الرٹ جاری کیا ہے کراچی میں مزید دو دن بارش کا سلسلہ جاری رہ سکتا ہے۔ شہری حلقے اندیشہ ظاہر کر رہے ہیں کہ اگر یہی صورتحال برقرار رہی تو مزید جانی و مالی نقصان ہو سکتا ہے۔
کراچی کی حالیہ بارشوں نے ایک بار پھر یہ ثابت کر دیا کہ دنیا کے بڑے شہروں میں شمار ہونے والے اس میٹروپولیس کا انفراسٹرکچر انتہائی کمزور ہے۔ اگر فوری طور پر اقدامات نہ کیے گئے تو مستقبل میں مزید تباہی ناگزیر ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا حکومت اور ادارے اس بارش کو ایک سبق سمجھ کر عملی اقدامات کریں گے، یا ایک بار پھر سب کچھ "وقت” کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جائے گا؟
READ MORE FAQ”
کراچی میں کتنی بارش ریکارڈ کی گئی؟
محکمہ موسمیات کے مطابق کراچی میں 245 ملی میٹر بارش ریکارڈ کی گئی۔
بارش کے دوران کتنے افراد جاں بحق ہوئے؟
مختلف حادثات میں کم از کم 15 افراد جاں بحق ہوئے۔
ایم کیو ایم نے کیا مطالبہ کیا؟
ایم کیو ایم نے کراچی کو فوری طور پر آفت زدہ علاقہ قرار دینے کا مطالبہ کیا۔
فوج اور رینجرز نے کیا کردار ادا کیا؟
فوج اور رینجرز نے شہریوں کو نکالنے، ٹریفک بحالی اور امدادی کارروائیوں میں حصہ لیا۔