بدین میں بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ (RAW) سے منسلک دہشت گرد نیٹ ورک کے خلاف ہونے والی حالیہ کارروائی نے نہ صرف ایک بڑے قتل کیس کے پس پردہ حقائق کو بے نقاب کیا
یہ بھی آشکار کیا ہے کہ کس طرح خلیجی ممالک بھارتی ایجنسی کے لیے پاکستانی شہریوں کو بھرتی کرنے اور انہیں اپنے ہی ملک کے خلاف استعمال کرنے کا گڑھ بنتے جا رہے ہیں۔
یہ آپریشن انٹیلی جنس بیورو (IB) اور سندھ کاؤنٹر ٹیررازم ڈپارٹمنٹ (CTD) کی مشترکہ کارروائی کا نتیجہ تھا جس نے یہ ثابت کیا کہ آئی بی نے خلیج میں قائم RAW نیٹ ورک کا پردہ فاش کیا اور ایک مرتبہ پھر پاکستان میں دہشت گردی کی سازش کو ناکام بنایا۔
عبدالرحمن نظامانی کا قتل اور بھارتی پروپیگنڈا
یہ کارروائی بنیادی طور پر 18 مئی 2025 کو بدین میں ہونے والے قتل کے واقعے سے جڑی ہوئی تھی۔ اس قتل کا نشانہ جماعت الدعوۃ کا کارکن عبدالرحمن المعروف رضا اللہ نظامانی تھا۔ بھارتی میڈیا نے اس قتل کو بڑی کامیابی قرار دیا اور دعویٰ کیا کہ یہ شخص بھارت میں مبینہ حملوں میں ملوث تھا۔ لیکن پاکستانی تحقیقاتی اداروں نے کڑی نگرانی اور باریک بینی سے تفتیش کے بعد انکشاف کیا کہ اس قتل کے پیچھے براہِ راست RAW ملوث تھی اور یہ خلیج میں مقیم ایک پاکستانی ایجنٹ کے ذریعے منظم کیا گیا تھا۔

خلیجی ریاستوں کو اڈہ بنانے کی سازش
تحقیقات کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ RAW نے ایک منظم حکمت عملی کے تحت خلیجی ریاستوں کو اپنی سرگرمیوں کے لیے محفوظ پناہ گاہ بنا رکھا ہے۔ وہاں مقیم پاکستانی ورکرز کو مالی لالچ دے کر اور ویزا جیسی سہولتوں کا وعدہ کر کے ایسے مشنز کے لیے تیار کیا جاتا ہے جن کا مقصد پاکستان کے اندر اہم شخصیات کو نشانہ بنانا ہوتا ہے۔
یہ پہلی بار نہیں تھا کہ آئی بی نے خلیج میں قائم RAW نیٹ ورک کا پردہ فاش کیا۔ ماضی میں بھی ایسے کئی واقعات رونما ہو چکے ہیں، جیسے کہ حافظ سعید پر قاتلانہ حملہ اور جیش محمد کے رہنما مولانا شاہد لطیف کا 2023 میں قتل، جن میں ملوث ٹیمیں خلیج میں مقیم پاکستانی ایجنٹس کے ذریعے منظم کی گئی تھیں۔
سنجے عرف ’’فوجی‘‘ اور سلمان کا نیٹ ورک
بدین کیس میں RAW کے ایجنٹ سنجے سنجیو کمار عرف فوجی کا کردار مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔ وہ خلیج میں مقیم تھا اور اس نے شیخوپورہ کے رہائشی پاکستانی سلمان کو بھرتی کیا۔ دونوں کی ابتدائی ملاقات روم میٹ کی حیثیت سے ہوئی تھی لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کی دوستی ایک خفیہ نیٹ ورک کی بنیاد رکھ گئی۔
سلمان نے نہ صرف خود اس نیٹ ورک میں حصہ لیا بلکہ اپنے کزن عمیر کو بھی شامل کر لیا، جس کا مجرمانہ پس منظر تھا۔ رابطہ کاری کے لیے سگنل ایپ استعمال کی گئی، اور عمیر کو رضا اللہ نظامانی کو ٹریک کرنے کے بدلے ایک کروڑ روپے اور یورپی ویزا دینے کا وعدہ کیا گیا۔

قاتل ٹیموں کی تشکیل
ابتدائی طور پر سلمان نے ایک لاکھ روپے ایڈوانس دیے جس کے بعد عمیر نے اپنے ساتھیوں سجاد اور شکیل کو بھرتی کیا۔ یہ ٹیم اپریل 2025 میں حیدرآباد پہنچی، موٹر سائیکل خریدی، ہوٹل میں قیام کیا اور ہدف کی نگرانی شروع کی، مگر بعد میں دباؤ کے باعث واپس لوٹ گئی۔
اسی دوران سلمان نے مزید ایک ٹیم بنانے کا فیصلہ کیا۔ اس مقصد کے لیے اس نے خلیج میں مقیم اپنے ساتھی ارسلان کو استعمال کیا جو پہلے ایک ڈیلیوری ورکر تھا۔ ارسلان کو پاکستان لانے کے لیے پانچ لاکھ روپے فراہم کیے گئے اور اس نے مزید چار افراد کو ہدف کی نگرانی کے لیے بھرتی کر لیا۔ ان افراد کا کردار صرف نگرانی تک محدود رکھا گیا تاکہ اصل حملہ آوروں پر دباؤ کم ہو۔
دونوں ٹیموں کا انضمام
وقت گزرنے کے ساتھ دونوں ٹیمیں آپس میں مل گئیں۔ سلمان اور عمیر حیدرآباد کے ایک ہوٹل میں قیام پذیر تھے جبکہ سنجے ’’فوجی‘‘ خلیج سے براہِ راست رہنمائی فراہم کر رہا تھا۔ اس نیٹ ورک نے انتہائی منظم طریقے سے رضا اللہ نظامانی کی نقل و حرکت پر نظر رکھی اور بالآخر قتل کی منصوبہ بندی مکمل کر لی۔
پاکستانی اداروں کی بروقت کارروائی
یہاں پاکستانی انٹیلی جنس اداروں خصوصاً آئی بی اور CTD سندھ کی مستعدی اور بروقت کارروائی نے پورے نیٹ ورک کو بے نقاب کر دیا۔ مسلسل نگرانی اور خفیہ معلومات کے تبادلے کے نتیجے میں متعدد گرفتاریاں عمل میں آئیں۔
گرفتار ملزمان نے تفتیش کے دوران نہ صرف اپنی شمولیت کا اعتراف کیا بلکہ یہ بھی بتایا کہ انہیں کس طرح خلیج میں موجود RAW ایجنٹس نے بھرتی کیا، کس کس کو کتنی رقم دی گئی، اور کس طرح انہیں پاکستان میں ٹارگٹ کلنگ کے لیے استعمال کیا جانا تھا۔

RAW کا طریقۂ کار
تفتیشی رپورٹ کے مطابق RAW کا طریقۂ کار تقریباً ایک جیسا ہوتا ہے۔ سب سے پہلے خلیج میں مقیم پاکستانی ورکرز کو ہدف بنایا جاتا ہے، انہیں لالچ دیا جاتا ہے کہ وہ اپنے ملک میں موجود مخصوص افراد کو نشانہ بنائیں۔ اس کے بعد انہیں چھوٹے گروپوں میں تقسیم کر کے ’’پیرالل ٹیمیں‘‘ بنائی جاتی ہیں تاکہ ایک ٹیم ناکام ہو تو دوسری کامیاب ہو سکے۔
یہی حکمت عملی بدین کیس میں بھی اپنائی گئی تھی لیکن اس بار پاکستانی انٹیلی جنس نے نہ صرف منصوبہ ناکام بنایا بلکہ واضح شواہد کے ساتھ یہ بھی ثابت کر دیا کہ آئی بی نے خلیج میں قائم RAW نیٹ ورک کا پردہ فاش کیا۔
قومی سلامتی پر اثرات
یہ انکشافات پاکستان کی قومی سلامتی کے حوالے سے انتہائی اہم ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ دشمن ایجنسی خلیجی ریاستوں کو بطور آپریشنل بیس استعمال کر رہی ہے۔ اگرچہ پاکستان نے کئی بار ان ممالک کے ساتھ سفارتی سطح پر یہ مسئلہ اٹھایا ہے لیکن اب ضرورت اس بات کی ہے کہ خلیجی ریاستوں کے ساتھ انٹیلی جنس تعاون مزید بڑھایا جائے تاکہ مستقبل میں ایسے واقعات کو روکا جا سکے۔
بدین میں ہونے والی حالیہ گرفتاریاں اس حقیقت کو ثابت کرتی ہیں کہ RAW پاکستان میں بدامنی پھیلانے کے لیے ہر ممکن حربہ استعمال کر رہی ہے۔ لیکن پاکستانی انٹیلی جنس اداروں کی بروقت کارروائی نے ایک مرتبہ پھر دشمن کے عزائم کو خاک میں ملا دیا۔
یہ آپریشن اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ آئی بی نے خلیج میں قائم RAW نیٹ ورک کا پردہ فاش کیا اور پاکستان کی سلامتی کے تحفظ کے لیے اپنی پیشہ ورانہ مہارت کا بھرپور مظاہرہ کیا۔
READ MORE FAQs
آئی بی نے خلیج میں قائم RAW نیٹ ورک کا پردہ کیسے فاش کیا؟
آئی بی نے کڑی نگرانی اور سی ٹی ڈی سندھ کے تعاون سے متعدد گرفتاریاں کیں اور یہ انکشاف کیا کہ RAW خلیجی ریاستوں میں مقیم پاکستانیوں کو بھرتی کر کے پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں کے لیے استعمال کر رہی تھی
بدین میں ہونے والا واقعہ کس سے منسلک تھا؟
یہ واقعہ عبدالرحمن نظامانی کے قتل سے منسلک تھا، جسے RAW کے ایجنٹوں نے خلیج میں موجود نیٹ ورک کے ذریعے ٹارگٹ کیا
RAW پاکستانی شہریوں کو کس طرح استعمال کرتی تھی؟
بھارتی ایجنسی RAW پاکستانی ورکرز کو خلیجی ممالک میں مالی لالچ اور یورپی ویزا دینے کے وعدے پر بھرتی کرتی اور انہیں پاکستان میں اہم شخصیات کو نشانہ بنانے کے لیے استعمال کرتی تھی