پاکستان میں سیلابی صورتحال سنگین، متاثرین کی مشکلات میں اضافہ
ملک میں شدید بارشوں اور سیلابی صورتحال: انسانی بحران کی سنگین شکل اختیار کرتا سانحہ
ملک بھر میں جاری شدید بارشوں کا سلسلہ خطرناک صورتحال اختیار کر چکا ہے۔ کئی علاقوں میں ندی نالے بپھر گئے ہیں، نشیبی آبادیاں زیرِ آب آ چکی ہیں، اور متاثرہ علاقوں میں سیلاب متاثرین کی مشکلات میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ گلی کوچوں سے لے کر بڑے شہروں اور دیہی علاقوں تک، پانی کے تیز بہاؤ نے انسانی زندگی کے تمام پہلوؤں کو شدید متاثر کیا ہے۔
دریاؤں میں خطرناک حد تک پانی کی سطح بلند
دریائے ستلج میں گنڈا سنگھ والا کے مقام پر انتہائی اونچے درجے کا سیلاب ریکارڈ کیا گیا ہے، جس کے باعث قریبی علاقوں میں خطرے کی گھنٹیاں بجنے لگی ہیں۔ تلوار پوسٹ سے ملحقہ دیہات کو خالی کرانے کے لیے ضلعی انتظامیہ کی جانب سے مسلسل اعلانات کیے جا رہے ہیں تاکہ جانی نقصان سے بچا جا سکے۔
فلڈ فورکاسٹنگ ڈویژن کے مطابق دریائے راوی میں بلوکی اور دریائے ستلج میں گنڈاسنگھ والا کے مقامات پر اونچے درجے کا سیلاب ہے۔ اس کے علاوہ چنیوٹ برج، راوی سائفن اور شاہدرہ کے علاقوں میں بھی پانی کی سطح خطرناک حد تک بلند ہو چکی ہے، جس سے مقامی آبادی کو شدید خطرات لاحق ہیں۔
ڈیموں کی بھرنے کی سطح تشویشناک
ملک کے دو بڑے آبی ذخائر، تربیلا اور منگلا ڈیم، بالترتیب 100 فیصد اور 81 فیصد تک بھر چکے ہیں۔ یہ صورتحال ماہرین کے مطابق غیر معمولی ہے، کیونکہ مزید بارشوں کی صورت میں ان ڈیموں سے پانی خارج کرنا ضروری ہو جائے گا، جو کہ نشیبی علاقوں میں مزید سیلابی صورتحال پیدا کر سکتا ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ ممکنہ خطرات کے پیش نظر پیشگی اقدامات کرے تاکہ انسانی جانوں اور املاک کا نقصان کم سے کم ہو۔
درمیانے اور نچلے درجے کا سیلاب
ملک کے دیگر مقامات پر بھی صورتحال کچھ کم تشویشناک نہیں۔ فلڈ فورکاسٹنگ ڈویژن کے مطابق گڈو، خانکی، قادرآباد اور جسر کے مقامات پر درمیانے درجے کا سیلاب ہے۔ سکھر، کوٹری، مرالہ اور ہیڈ اسلام کے مقامات پر نچلے درجے کا سیلاب موجود ہے، تاہم بارشوں کے تسلسل کے باعث یہ بھی کسی بھی وقت اونچے درجے میں تبدیل ہو سکتا ہے۔
متاثرہ شہروں کی صورتحال
چنیوٹ میں گزشتہ کئی گھنٹوں سے مسلسل بارش کا سلسلہ جاری ہے، جس کے نتیجے میں نشیبی علاقے شدید متاثر ہو چکے ہیں۔ مقامی افراد کے مطابق گھروں میں پانی داخل ہو چکا ہے جبکہ ریسکیو اداروں کو مشکلات کا سامنا ہے۔
اسی طرح شیخوپورہ اور گرد و نواح میں بھی تیز بارش کے بعد گلیوں، بازاروں اور رہائشی علاقوں میں پانی کھڑا ہو گیا ہے۔ سیوریج سسٹم کی ناکامی نے صورتحال کو مزید سنگین کر دیا ہے۔
جہلم شہر اور اس کے مضافاتی علاقوں میں ندی نالے بپھر گئے ہیں۔ پانی نے کئی گھروں میں داخل ہو کر قیمتی سامان تباہ کر دیا ہے۔ مقامی آبادی امداد کی منتظر ہے، لیکن مسلسل بارش کے باعث ریسکیو ٹیمیں بروقت نہ پہنچ سکیں۔
قصور اور ملتان میں ہنگامی صورتحال
پنجاب کے دریاؤں میں غیر معمولی سیلابی کیفیت پیدا ہو چکی ہے۔ قصور کے مقام پر تاریخ کا سب سے بڑا ریلا ریکارڈ کیا گیا ہے۔ حکام کے مطابق اس ریلے کے باعث شہر کو بچانا ایک چیلنج بن چکا ہے۔
ملتان میں بھی آج شام تک ایک بڑا ریلا داخل ہونے کا خدشہ ظاہر کیا گیا ہے، جس کے باعث تین لاکھ سے زائد افراد کی نقل مکانی متوقع ہے۔ ضلعی انتظامیہ نے ہنگامی بنیادوں پر نقل مکانی کے انتظامات مکمل کرنے کا عندیہ دیا ہے، تاہم اس میں عوامی تعاون ناگزیر ہے۔
پنجاب کا سب سے بڑا ریسکیو آپریشن
ڈی جی پی ڈی ایم اے پنجاب، عرفان علی کاٹھیا نے لاہور میں پریس کانفرنس کے دوران بتایا کہ پنجاب کی تاریخ کا سب سے بڑا ریسکیو آپریشن شروع کیا گیا ہے۔ اس آپریشن میں 800 سے زائد کشتیوں اور ہزاروں ریسکیو ورکرز نے حصہ لیا۔ پاکستان آرمی کا تعاون بھی قابلِ تحسین ہے، جنہوں نے خطرناک علاقوں میں بروقت امداد فراہم کی۔
ڈی جی کے مطابق، اگر کسی علاقے میں صورتحال قابو سے باہر ہوئی تو وہاں پر حفاظتی بندوں میں شگاف ڈال کر پانی کا رخ موڑ دیا جائے گا تاکہ انسانی جانوں کا تحفظ کیا جا سکے۔
آزاد کشمیر میں بھی طغیانی
باغ، آزاد کشمیر میں بھی موسلادھار بارش کے باعث نالہ ماہل میں شدید طغیانی آ گئی ہے۔ نالے کے کنارے آباد بستی کو مکمل طور پر خالی کرا لیا گیا ہے تاکہ کسی جانی نقصان سے بچا جا سکے۔ پہاڑی علاقوں میں ایسی صورتحال اکثر جان لیوا ثابت ہوتی ہے کیونکہ پانی کا بہاؤ بے قابو ہوتا ہے اور امدادی سرگرمیاں مشکل ہو جاتی ہیں۔
محکمہ موسمیات کی پیش گوئی
محکمہ موسمیات کے مطابق آئندہ 24 سے 48 گھنٹوں کے دوران ملک کے کئی حصوں میں مزید بارشوں کی توقع ہے۔ اسلام آباد، پنجاب، خیبر پختونخوا اور کشمیر میں موسلا دھار بارش ہو سکتی ہے، جبکہ سندھ، بلوچستان اور گلگت بلتستان میں شام یا رات کے اوقات میں بارش متوقع ہے۔ یہ پیش گوئی اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ سیلابی خطرات مزید بڑھ سکتے ہیں۔
انسانی المیہ اور فوری ضروریات
ان تمام قدرتی آفات کے نتیجے میں ایک سنگین انسانی بحران جنم لے چکا ہے۔ ہزاروں خاندان بے گھر ہو چکے ہیں۔ ان کے پاس نہ رہنے کو گھر ہے، نہ کھانے کو خوراک، اور نہ پینے کے لیے صاف پانی۔ بچے، بزرگ، خواتین اور بیمار افراد اس صورتحال سے سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔
متاثرہ علاقوں میں وبائی امراض کے پھیلنے کا خطرہ بھی بڑھ گیا ہے۔ پانی کی آلودگی اور صفائی کے ناقص انتظامات کے باعث ہیضہ، ڈائریا اور دیگر بیماریوں کے امکانات بڑھتے جا رہے ہیں۔
اقدامات کی ضرورت
یہ وقت صرف ہنگامی اقدامات کا نہیں، بلکہ طویل المدتی منصوبہ بندی کا بھی ہے۔ حکومت، اداروں اور معاشرے کو مل کر ایسی حکمتِ عملی ترتیب دینی ہو گی جس کے ذریعے سیلاب جیسی قدرتی آفات سے ہونے والے نقصانات کو کم سے کم کیا جا سکے۔ ڈرینیج سسٹم کو بہتر بنانا، ندی نالوں کی صفائی، موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے ماحولیاتی منصوبہ بندی اور متاثرہ افراد کے لیے مستقل ریلیف سسٹم کی تشکیل وقت کی اہم ضرورت ہے۔
ملک ایک بار پھر شدید موسمی حالات اور ان کے نتیجے میں پیدا ہونے والے انسانی المیے کی لپیٹ میں آ چکا ہے۔ بارشوں کا یہ سلسلہ صرف قدرتی آفت نہیں، بلکہ انتظامی نااہلی اور منصوبہ بندی کی کمی کا عکس بھی ہے۔ ہمیں بطور قوم اس صورتحال کا سامنا ذمہ داری سے کرنا ہو گا اور مستقبل میں ایسی تباہ کاریوں سے بچنے کے لیے سنجیدہ اقدامات اٹھانے ہوں گے۔

Comments 1