آسٹریلیا میں بھارتی تارکین وطن کیخلاف مظاہروں سے گونج اٹھا
آسٹریلیا حالیہ دنوں ایک ایسے مسئلے سے دوچار ہے جو نہ صرف ملکی سیاست بلکہ معاشرتی ہم آہنگی پر بھی گہرے اثرات ڈال رہا ہے۔ مختلف شہروں میں ہزاروں شہری سڑکوں پر نکلے اور آسٹریلیا میں بھارتی تارکین وطن کے خلاف مظاہرے کیے۔ یہ مظاہرے “مارچ فار آسٹریلیا” کے نام سے منسوب ہیں جن میں خاص طور پر بھارتی نژاد کمیونٹی کو نشانہ بنایا گیا۔
احتجاج کا آغاز کیسے ہوا؟
اتوار کے روز سڈنی، میلبرن، کینبرا اور دیگر شہروں میں امیگریشن مخالف ریلیاں نکالی گئیں۔ ان ریلیوں میں ہزاروں افراد شریک ہوئے جنہوں نے قومی پرچم اٹھا رکھا تھا۔ شرکاء نے یہ موقف اختیار کیا کہ گزشتہ پانچ سالوں سے آسٹریلیا میں بھارتی تارکین وطن کی تعداد بہت زیادہ بڑھ گئی ہے جس سے مقامی ثقافت اور ملازمتوں پر اثر پڑ رہا ہے۔
آسٹریلیا میں بھارتی تارکین وطن کو نشانہ بنانا
مظاہروں کے دوران خاص طور پر بھارتی تارکین وطن کو نشانہ بنایا گیا۔ “مارچ فار آسٹریلیا” کے پروموشنل مواد میں بھی یہی کہا گیا کہ بھارت سے آنے والے تارکین وطن کی تعداد پچھلے سو سالوں میں یونانی اور اطالوی تارکین وطن سے بھی کہیں زیادہ ہے۔ اس دعوے کے مطابق یہ محض ایک ہجرت نہیں بلکہ ایک بڑی “ثقافتی تبدیلی” ہے جو آسٹریلوی معاشرے کو تقسیم کر رہی ہے۔
اعداد و شمار کیا کہتے ہیں؟
مردم شماری کے اعداد و شمار کے مطابق 2013 سے 2023 کے درمیان آسٹریلیا میں بھارتی تارکین وطن کی تعداد تقریباً دگنی ہو کر 845,800 تک پہنچ گئی۔ اس وقت وہ آسٹریلیا کی کل آبادی کا 3 فیصد سے زیادہ ہیں۔ ریلی کے منتظمین کا کہنا ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں ایک ہی ملک کے شہریوں کی ہجرت نے سماجی ڈھانچے کو متاثر کیا ہے۔
حکومت کا ردعمل
آسٹریلوی حکومت نے ان مظاہروں کو سختی سے مسترد کیا ہے اور انہیں “نفرت پھیلانے کی کوشش” قرار دیا ہے۔ حکومتی ترجمانوں نے کہا کہ یہ ریلیاں نو نازی نظریات سے متاثر گروپوں کی کارروائی ہیں اور ان کا مقصد معاشرتی ہم آہنگی کو نقصان پہنچانا ہے۔ حکومت نے یہ بھی واضح کیا کہ بھارتی تارکین وطن آسٹریلیا کی معیشت اور معاشرت میں مثبت کردار ادا کر رہے ہیں۔
پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپیں
مظاہروں کے دوران کئی مقامات پر پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپیں ہوئیں۔ پولیس کو مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے لاٹھی چارج اور آنسو گیس کا استعمال کرنا پڑا۔ اس دوران چھ افراد کو گرفتار کیا گیا جبکہ دو پولیس اہلکار زخمی بھی ہوئے۔ یہ جھڑپیں خاص طور پر سڈنی اور میلبرن میں زیادہ شدید تھیں جہاں سب سے بڑی ریلیاں نکالی گئیں۔
عوامی رائے منقسم
آسٹریلیا میں عوامی رائے اس معاملے پر منقسم دکھائی دیتی ہے۔ ایک طبقہ سمجھتا ہے کہ زیادہ امیگریشن مقامی شہریوں کے لیے روزگار اور ثقافتی شناخت کے مسائل پیدا کر رہی ہے، جبکہ دوسرا طبقہ یہ مانتا ہے کہ تارکین وطن خصوصاً بھارتی کمیونٹی نے آسٹریلیا کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ خاص طور پر آئی ٹی، صحت اور بزنس سیکٹر میں بھارتی تارکین وطن نے نمایاں کامیابیاں حاصل کی ہیں۔
آسٹریلیا میں بھارتی تارکین وطن کا ردعمل
آسٹریلیا میں بھارتی تارکین وطن نے ان مظاہروں کو افسوسناک قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ آسٹریلوی قوانین اور معاشرتی اقدار کا احترام کرتے ہیں اور ملک کی ترقی میں حصہ ڈال رہے ہیں۔ بھارتی تنظیموں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ ایسے مظاہروں کو روکا جائے تاکہ نسلی منافرت کو فروغ نہ ملے۔
بین الاقوامی سطح پر اثرات
بھارت میں بھی ان مظاہروں کی خبریں نمایاں طور پر شائع ہوئیں۔ بھارتی میڈیا نے انہیں بھارتی تارکین وطن کے خلاف “نسل پرستانہ رویہ” قرار دیا۔ اس معاملے نے دونوں ممالک کے تعلقات پر بھی سوالات کھڑے کر دیے ہیں کیونکہ بھارت آسٹریلیا کا اہم تجارتی اور تعلیمی پارٹنر ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ آسٹریلیا میں بھارتی تارکین وطن کی تعداد تیزی سے بڑھی ہے اور اس کے اثرات معاشرتی و ثقافتی سطح پر ضرور دیکھے جا سکتے ہیں۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ تارکین وطن نے آسٹریلیا کی معیشت کو مضبوط کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت اور عوام مل کر ایسے مسائل کو پرامن طریقے سے حل کریں تاکہ معاشرتی ہم آہنگی برقرار رہے اور نفرت انگیزی کو جڑ سے ختم کیا جا سکے۔
