پی ٹی آئی کے مزید 28 اراکین کے استعفے، سیاسی ہلچل تیز
تحریک انصاف کے 28 مزید اراکین اسمبلی کا قائمہ کمیٹیوں سے استعفیٰ – سیاسی کشیدگی میں نیا موڑ
پاکستان کی موجودہ سیاسی فضا ایک بار پھر شدید ہلچل کا شکار ہو چکی ہے، اور اس کی ایک تازہ مثال پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے 28 مزید اراکین قومی اسمبلی کا پارلیمنٹ کی قائمہ کمیٹیوں سے اجتماعی استعفیٰ ہے۔ ان استعفوں کے بعد قائمہ کمیٹیوں سے مستعفی ہونے والے پی ٹی آئی اراکین کی مجموعی تعداد 47 ہو چکی ہے۔ اس غیر معمولی پیشرفت نے نہ صرف پارلیمانی سیاست پر سوالات کھڑے کر دیے ہیں بلکہ آئندہ سیاسی منظرنامے پر بھی گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔
استعفوں کی تفصیل
ذرائع کے مطابق پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے ان 28 اراکین نے اپنے استعفے اسپیکر آفس میں جمع کروائے، جب کہ پارٹی کے 6 اہم اراکین نے کمیٹی چیئرمین شپ سے بھی استعفیٰ دے دیا ہے۔ کمیٹیوں کے ان چیئرمینز میں جنید اکبر، عامر ڈوگر، ثناء اللہ مستی خیل، ڈاکٹر ضیاء الدین، جاوید اقبال اور حاجی امتیاز احمد شامل ہیں۔ یہ تمام افراد مختلف اہم پارلیمانی کمیٹیوں کے سربراہان تھے، اور ان کا اچانک کنارہ کش ہونا نہ صرف ایک علامتی عمل ہے بلکہ اس کے پارلیمانی نظام پر بھی واضح اثرات مرتب ہوں گے۔
استعفوں کی پسِ منظر میں عمران خان کی ہدایت
اس اجتماعی اقدام کے پیچھے پی ٹی آئی کے بانی اور سابق وزیراعظم عمران خان کی حالیہ ہدایت کارفرما ہے، جس میں انہوں نے پارٹی کے تمام اراکین کو کہا تھا کہ وہ پارلیمنٹ کی قائمہ کمیٹیوں سے مستعفی ہو جائیں۔ عمران خان کا مؤقف ہے کہ موجودہ حکومت "غیر آئینی” اور "غیر نمائندہ” ہے، اور پی ٹی آئی ایسی کسی بھی پارلیمانی کارروائی کا حصہ نہیں بنے گی جو "جعلی مینڈیٹ” کی بنیاد پر چلائی جا رہی ہو۔
یہ ہدایت پارٹی کی اُس پالیسی کا تسلسل ہے جو عمران خان نے 2022 میں اپنی حکومت کے خاتمے کے بعد اپنائی تھی، جس میں وہ اسٹیبلشمنٹ پر الزامات، عدلیہ پر تنقید اور موجودہ حکمران اتحاد کو "سازش” کے نتیجے میں آنے والا گروہ قرار دیتے رہے ہیں۔
پارلیمانی کمیٹیوں کی اہمیت
پاکستانی پارلیمانی نظام میں قائمہ کمیٹیاں نہایت اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ یہ کمیٹیاں قانون سازی کے عمل، سرکاری اداروں کی نگرانی، اور بجٹ و پالیسیوں کی جانچ پڑتال جیسے امور سرانجام دیتی ہیں۔ کمیٹیوں کے چیئرمین اور اراکین کو عام طور پر ان کی مہارت، تجربے یا سیاسی اثر و رسوخ کے مطابق منتخب کیا جاتا ہے۔
تحریک انصاف کے درجنوں اراکین کا ایک ساتھ مستعفی ہونا ان کمیٹیوں کی افادیت اور کارکردگی پر براہ راست اثر ڈال سکتا ہے، خاص طور پر جب کہ ملک پہلے ہی شدید سیاسی اور معاشی بحرانوں کا شکار ہے۔
سیاسی پیغام اور ممکنہ نتائج
پی ٹی آئی کا یہ اقدام محض علامتی احتجاج نہیں بلکہ ایک طاقتور سیاسی پیغام ہے۔ یہ استعفے دراصل اس احتجاج کا حصہ ہیں جو پی ٹی آئی کی قیادت گزشتہ ڈیڑھ سال سے جاری رکھے ہوئے ہے۔ پارٹی کا دعویٰ ہے کہ موجودہ پارلیمنٹ میں ان کی مناسب نمائندگی کو تسلیم نہیں کیا جا رہا، اور انہیں دانستہ طور پر سیاسی عمل سے باہر رکھا جا رہا ہے۔
پی ٹی آئی کے حمایتی حلقوں میں اس اقدام کو ایک "اصولی مؤقف” کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے، جب کہ مخالفین اسے پارلیمانی نظام کو کمزور کرنے کی کوشش قرار دے رہے ہیں۔
اپوزیشن کی حیثیت کمزور یا مضبوط؟
ان استعفوں کے بعد ایک بڑا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا پی ٹی آئی واقعی ایک مؤثر اپوزیشن جماعت کے طور پر کام کر رہی ہے یا نہیں۔ پارلیمنٹ سے باہر رہ کر اپوزیشن کا کردار ادا کرنا ایک الگ نوعیت کی حکمتِ عملی ہے، مگر اس کے نتائج اکثر منفی نکلتے ہیں۔ قائمہ کمیٹیوں سے استعفے دینے کے بعد پی ٹی آئی پارلیمانی معاملات میں مزید غیر مؤثر ہو سکتی ہے، اور اس خلا کو دیگر جماعتیں پر کر سکتی ہیں، بالخصوص مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی یا دیگر چھوٹی جماعتیں۔
آئینی اور قانونی پہلو
یہ معاملہ آئینی طور پر بھی پیچیدگی پیدا کر سکتا ہے۔ اگرچہ رکنیت سے استعفیٰ دینا ایک انفرادی حق ہے، لیکن اجتماعی استعفے بعض اوقات "دباؤ کے تحت یا سیاسی حکمت عملی” کے طور پر بھی لیے جاتے ہیں، جس پر آئینی ماہرین میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ سپیکر قومی اسمبلی کے پاس یہ اختیار ہے کہ وہ ان استعفوں کو قبول کریں یا ان پر مزید وضاحت طلب کریں۔ ماضی میں بھی ایسے استعفے واپس لیے جاتے رہے ہیں یا منظور نہیں کیے گئے۔
عوامی ردِعمل
عام عوام میں اس فیصلے پر ملا جلا ردعمل سامنے آیا ہے۔ کچھ لوگ اسے عمران خان کی "اصولی سیاست” سے جوڑتے ہیں، جب کہ دیگر اس رویے کو غیر جمہوری اور غیر سنجیدہ قرار دیتے ہیں۔ پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں جہاں پارلیمانی نمائندگی عوام کی آواز سمجھی جاتی ہے، وہاں اس قسم کی کنارہ کشی بعض اوقات رائے دہندگان کے اعتماد کو ٹھیس پہنچا سکتی ہے۔
مستقبل کا منظرنامہ
اگر پی ٹی آئی نے پارلیمانی عمل سے مکمل بائیکاٹ کی پالیسی کو مزید شدت دی، تو یہ صورتحال ملکی جمہوریت کے لیے ایک امتحان بن سکتی ہے۔ دوسری جانب، اگر مذاکرات کا کوئی دروازہ کھلتا ہے اور کوئی درمیانی راستہ نکلتا ہے تو یہ سیاسی بحران کم ہو سکتا ہے۔
عمران خان کی ممکنہ رہائی یا ان پر لگے مقدمات کا فیصلہ بھی آئندہ سیاسی حالات کا تعین کرے گا۔ اگر پی ٹی آئی دوبارہ منظم ہو کر میدان میں آتی ہے تو قائمہ کمیٹیوں میں واپسی ممکن ہے، بصورت دیگر پارٹی کا پارلیمانی کردار مزید محدود ہو سکتا ہے۔
تحریک انصاف کے 28 مزید اراکین کا قائمہ کمیٹیوں سے استعفیٰ نہ صرف ایک سیاسی احتجاج ہے بلکہ یہ موجودہ پارلیمانی نظام پر عدم اعتماد کا واضح اظہار بھی ہے۔ عمران خان کی قیادت میں پی ٹی آئی نے ایک مرتبہ پھر اپنی سیاسی حکمت عملی کو جارحانہ انداز میں پیش کیا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ پارلیمنٹ، عدلیہ، اور اسٹیبلشمنٹ اس چیلنج سے کیسے نبردآزما ہوتے ہیں۔ کیا سیاسی ڈائیلاگ کا راستہ کھلے گا یا محاذ آرائی مزید بڑھے گی؟ یہ سوالات آنے والے دنوں میں پاکستان کی سیاست کا رخ متعین کریں گے
