پن بجلی کے اوسط بنیادی ٹیرف میں اضافہ، بجلی کے صارفین پر نیا بوجھ
پاکستان میں توانائی کے شعبے میں ایک اور بڑا فیصلہ متوقع ہے جس کے نتیجے میں بجلی کے صارفین پر اضافی بوجھ ڈالنے کا امکان ہے۔ واپڈا نے نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) کو درخواست دی ہے کہ پن بجلی کے اوسط بنیادی ٹیرف میں اضافہ کیا جائے تاکہ آئندہ مالی سال کے لیے بڑھتی ہوئی مالی ضروریات کو پورا کیا جا سکے۔
واپڈا کی نیپرا میں درخواست
واپڈا کی طرف سے جمع کرائی گئی درخواست کے مطابق، ادارے نے اپنی مالی ضروریات میں تقریباً 90 فیصد اضافہ مانگا ہے۔ اس اضافے کی منظوری کی صورت میں پن بجلی کے اوسط بنیادی ٹیرف میں اضافہ 6 روپے 11 پیسے سے بڑھا کر 11 روپے 56 پیسے فی یونٹ تک ہو سکتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ صارفین کے لیے بجلی مزید مہنگی ہو جائے گی اور انہیں فی یونٹ بجلی پر 5 روپے 45 پیسے زیادہ ادا کرنا پڑے گا۔
واپڈا نے اپنی درخواست میں موقف اختیار کیا ہے کہ ادارے کو آئندہ مالی سال 2025-26 کے لیے 364 ارب 87 کروڑ روپے درکار ہوں گے۔ موجودہ مالی سال کے لیے واپڈا کی ریونیو ضروریات 190 ارب روپے تھیں، جن میں اب 173 ارب روپے کا اضافی مطالبہ کیا گیا ہے۔
نیپرا کی سماعت
نیپرا اتھارٹی واپڈا کی اس درخواست پر 11 ستمبر کو سماعت کرے گی۔ اگر نیپرا نے واپڈا کی یہ درخواست منظور کر لی تو پن بجلی کے اوسط بنیادی ٹیرف میں اضافہ سرکاری طور پر نافذ ہو جائے گا اور اس کے اثرات براہ راست عام صارفین کو بھگتنا پڑیں گے۔
پن بجلی کے اوسط بنیادی ٹیرف میں اضافہ کیوں ضروری قرار دیا گیا؟
واپڈا نے اپنی درخواست میں موقف پیش کیا ہے کہ 2022-23 میں جو ریونیو کی ضروریات مقرر کی گئی تھیں، وہ اب ناکافی ہیں۔ ملک میں بڑھتے ہوئے منصوبے، دیکھ بھال کے اخراجات اور توانائی کی پیداوار کے دیگر مسائل نے مالی بوجھ میں اضافہ کر دیا ہے۔ اسی لیے ادارے نے کہا ہے کہ موجودہ حالات میں پن بجلی کے اوسط بنیادی ٹیرف میں اضافہ کیے بغیر بجلی کے نظام کو مستحکم رکھنا ممکن نہیں۔
عوامی ردعمل اور خدشات
پاکستان میں پہلے ہی بجلی کے بل عوام کے لیے ایک بڑا مسئلہ بنے ہوئے ہیں۔ مہنگائی اور روزگار کے بحران کے دوران صارفین کو ہر ماہ بھاری بھرکم بجلی کے بلوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اب اگر پن بجلی کے اوسط بنیادی ٹیرف میں اضافہ منظور کر لیا گیا تو یہ عام شہریوں کی مشکلات میں مزید اضافہ کرے گا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ بجلی کی قیمتوں میں اضافے سے نہ صرف گھریلو صارفین متاثر ہوں گے بلکہ صنعتوں اور کاروباری طبقے پر بھی اس کے منفی اثرات مرتب ہوں گے۔
ماہرین کی رائے
توانائی کے ماہرین کا کہنا ہے کہ واپڈا کا یہ مؤقف کسی حد تک درست ہے کہ ادارے کو اپنے منصوبے جاری رکھنے اور ڈیمز کی دیکھ بھال کے لیے اضافی فنڈز کی ضرورت ہے۔ تاہم، اس کا بوجھ صرف عوام پر ڈالنا مناسب نہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ متبادل ذرائع سے فنڈز فراہم کرے تاکہ پن بجلی کے اوسط بنیادی ٹیرف میں اضافہ محدود سطح پر ہو اور عام صارفین پر کم سے کم بوجھ پڑے۔
بجلی کے نرخوں میں بار بار اضافہ
یہ پہلی بار نہیں ہے کہ بجلی کے نرخوں میں اضافہ تجویز کیا گیا ہو۔ گزشتہ چند برسوں میں متعدد بار بجلی کے نرخوں میں اضافہ کیا جا چکا ہے جس سے مہنگائی میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ اب ایک اور بار پن بجلی کے اوسط بنیادی ٹیرف میں اضافہ کی تجویز سامنے آنے کے بعد صارفین میں شدید بے چینی پائی جاتی ہے۔ لوگ سوال اٹھا رہے ہیں کہ آخر یہ اضافہ کب رکے گا اور عوام کو کب ریلیف ملے گا؟
پن بجلی کے منصوبے اور اخراجات
پاکستان میں واپڈا کے تحت متعدد پن بجلی کے منصوبے جاری ہیں جن کے لیے بھاری سرمایہ کاری درکار ہے۔ ان منصوبوں میں ڈیمز کی تعمیر، ٹربائنز کی اپ گریڈیشن اور نئی لائنز بچھانے کے منصوبے شامل ہیں۔ ان اخراجات کو پورا کرنے کے لیے ادارہ مسلسل کوشش کر رہا ہے اور اسی وجہ سے پن بجلی کے اوسط بنیادی ٹیرف میں اضافہ مانگا گیا ہے۔
مستقبل کے اثرات
اگر نیپرا نے واپڈا کی درخواست کو منظور کر لیا تو آنے والے دنوں میں بجلی کے نرخ مزید بڑھ جائیں گے۔ اس کا براہ راست اثر عوامی زندگی پر پڑے گا۔ گھریلو صارفین کو بجلی کے بل مزید بھاری ملیں گے جبکہ کاروباری طبقہ اپنے اخراجات پورے کرنے میں مشکل کا شکار ہوگا۔ پن بجلی کے اوسط بنیادی ٹیرف میں اضافہ یقینی طور پر ملکی معیشت پر بھی دباؤ ڈالے گا کیونکہ بجلی کی قیمت بڑھنے سے پیداواری لاگت میں اضافہ ہوگا اور اشیائے ضروریہ مزید مہنگی ہو جائیں گی۔
بجلی کا بل کم کرنے کا آسان طریقہ – لائٹس بند رکھنے کی عادت اپنائیں
مختصراً یہ کہا جا سکتا ہے کہ پن بجلی کے اوسط بنیادی ٹیرف میں اضافہ اس وقت ایک سنگین مسئلہ ہے جس کے اثرات براہ راست عوام پر مرتب ہوں گے۔ اگرچہ واپڈا کو اپنے منصوبوں کے لیے زیادہ ریونیو کی ضرورت ہے، لیکن اس کا حل عوام پر بوجھ ڈالنا نہیں ہونا چاہیے۔ حکومت اور نیپرا کو چاہیے کہ وہ اس مسئلے کے حل کے لیے متوازن پالیسی اپنائیں تاکہ ادارے کی مالی ضروریات بھی پوری ہوں اور عوام بھی مزید مشکلات کا شکار نہ ہوں۔
