حکومت نے تنخواہ دار طبقے سے 2 ماہ میں 85 ارب روپے ٹیکس وصول کرلیا
فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق مالی سال 2025-26 کے ابتدائی دو ماہ یعنی جولائی اور اگست کے دوران تنخواہ دار طبقے سے ٹیکس وصولی کی مد میں 85 ارب روپے جمع کیے گئے۔ یہ رقم گزشتہ سال کے مقابلے میں 21 فیصد زیادہ ہے۔ پچھلے مالی سال کے انہی دو ماہ میں حکومت کو صرف 70 ارب روپے حاصل ہوئے تھے۔ اس حساب سے رواں سال 15 ارب روپے کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔
یہ اعداد و شمار نہ صرف ایف بی آر کی کارکردگی کو ظاہر کرتے ہیں بلکہ اس حقیقت کو بھی اجاگر کرتے ہیں کہ ملک میں تنخواہ دار طبقے سے ٹیکس وصولی کا بوجھ مزید بڑھ گیا ہے۔
تنخواہ دار طبقے سے ٹیکس وصولی کی تقسیم
اعداد و شمار کے مطابق، تنخواہ دار طبقے سے جمع ہونے والے 85 ارب روپے کی تقسیم کچھ اس طرح ہے:
نان کارپورٹ ملازمین: 41 ارب روپے
کارپورٹ ملازمین: 20 ارب روپے
صوبائی سرکاری ملازمین: ساڑھے 10 ارب روپے
وفاقی ملازمین: 7.6 ارب روپے
بڑے پنشنرز پر نئے ٹیکس سے: 18 کروڑ روپے
یہ واضح ہوتا ہے کہ تنخواہ دار طبقے سے ٹیکس وصولی زیادہ تر نان کارپورٹ اور کارپورٹ سیکٹر کے ملازمین سے ہوئی ہے، جبکہ پنشنرز پر نئے ٹیکس سے خاطر خواہ آمدنی حاصل نہیں ہو سکی۔
گزشتہ سال کے مقابلے میں ٹیکس وصولی
گزشتہ مالی سال میں مجموعی طور پر ملازمت پیشہ افراد سے 555 ارب روپے کا ٹیکس وصول کیا گیا تھا۔ یہ رقم ایک سال پہلے کے مقابلے میں 188 ارب روپے زیادہ تھی۔ اس سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ حکومت بتدریج تنخواہ دار طبقے سے ٹیکس وصولی میں اضافہ کر رہی ہے تاکہ مالی ضروریات کو پورا کیا جا سکے۔
جائیداد کے شعبے سے ٹیکس وصولی
ایف بی آر کی رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ جائیداد کے شعبے میں ٹیکس وصولی کے رجحانات میں نمایاں تبدیلی آئی ہے۔
پلاٹوں کی فروخت پر ٹیکس وصولی 92 فیصد بڑھ کر 28 ارب روپے تک پہنچ گئی۔
جائیداد خریداری پر ٹیکس وصولی 12 فیصد کم ہو کر صرف 13 ارب روپے رہ گئی۔
اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ حکومت کی پالیسیوں کا اثر جائیداد کے خریداروں کے بجائے بیچنے والوں پر زیادہ پڑ رہا ہے۔
ایف بی آر کا ہدف اور شارٹ فال
اگرچہ تنخواہ دار طبقے سے ٹیکس وصولی میں اضافہ ہوا ہے لیکن ایف بی آر مجموعی طور پر اپنے مقررہ اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہا۔
اگست میں مقررہ ہدف 951 ارب روپے تھا لیکن صرف 901 ارب روپے جمع ہو سکے۔ یوں 50 ارب روپے کی کمی ریکارڈ ہوئی۔
جولائی اور اگست کے دوران مجموعی ہدف 1698 ارب روپے تھا لیکن ایف بی آر صرف 1663 ارب روپے ہی اکٹھے کر سکا۔ اس طرح 35 ارب روپے کا شارٹ فال سامنے آیا۔
رواں مالی سال کے لیے ٹیکس وصولی کا مجموعی ہدف 14 ہزار 131 ارب روپے رکھا گیا ہے، جسے حاصل کرنا ایف بی آر کے لیے ایک بڑا چیلنج ہوگا۔
تنخواہ دار طبقے پر بوجھ
ماہرین معاشیات کا کہنا ہے کہ ملک کی معاشی صورتحال کے پیش نظر حکومت کا زیادہ انحصار تنخواہ دار طبقے سے ٹیکس وصولی پر ہے۔ یہ طبقہ اپنی آمدنی سے براہ راست کٹوتی کے ذریعے ٹیکس ادا کرتا ہے، اس لیے ایف بی آر کے لیے یہ ٹیکس وصولی کا سب سے آسان ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔ تاہم اس پالیسی پر تنقید بھی کی جا رہی ہے کیونکہ اس سے متوسط اور نچلے متوسط طبقے کی مشکلات بڑھ رہی ہیں۔
ماہرین کی آراء
معاشی ماہرین کے مطابق اگرچہ تنخواہ دار طبقے سے ٹیکس وصولی میں اضافہ حکومت کے ریونیو کے لیے مثبت ہے، لیکن یہ پالیسی پائیدار نہیں۔ اس کے بجائے حکومت کو چاہیے کہ:
زرعی شعبے میں ٹیکس نیٹ بڑھائے۔
بڑے تاجروں اور کاروباری طبقے کو ٹیکس نیٹ میں لائے۔
نان فائلرز کے خلاف سخت کارروائی کرے۔
ٹیکس نظام کو سادہ اور شفاف بنائے۔
ورنہ تنخواہ دار طبقے پر زیادہ بوجھ ڈالنے سے مہنگائی اور عوامی بے چینی مزید بڑھ سکتی ہے۔
پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں تاریخی تیزی، کے ایس ای 100 انڈیکس ریکارڈ سطح پر
مختصر یہ کہ مالی سال 2025-26 کے ابتدائی دو ماہ میں حکومت نے تنخواہ دار طبقے سے ٹیکس وصولی کی مد میں 85 ارب روپے اکٹھے کیے جو گزشتہ سال کے مقابلے میں 21 فیصد زیادہ ہے۔ اگرچہ یہ اضافہ حکومتی خزانے کے لیے فائدہ مند ہے لیکن عوامی سطح پر اس کے اثرات مہنگائی اور مالی مشکلات کی صورت میں نظر آ رہے ہیں۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ ایف بی آر اپنے بڑے ہدف یعنی 14 ہزار ارب روپے کو کس طرح پورا کرے گا اور کیا حکومت مستقبل میں ٹیکس نیٹ کو وسیع کرنے کے بجائے پھر سے تنخواہ دار طبقے سے ٹیکس وصولی پر انحصار کرے گی یا نہیں۔