پنجاب حکومت نے سیلاب متاثرین کے لیے ائیر لفٹ ڈرون سروس شروع کر دی
پنجاب حکومت کا انقلابی اقدام: سیلاب متاثرین کے لیے جدید ائیر لفٹ ڈرون سروس کا آغاز
قدرتی آفات اور خاص طور پر سیلاب کے دوران جانی و مالی نقصان کو کم سے کم رکھنے کے لیے جہاں روایتی امدادی اقدامات اہم ہوتے ہیں، وہیں جدید ٹیکنالوجی کا بروقت اور مؤثر استعمال بھی زندگی بچانے میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ اسی وژن کے تحت پنجاب حکومت نے سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں لوگوں کو بچانے کے لیے ائیر لفٹ ڈرون سروس کا آغاز کر دیا ہے — جو کہ پاکستان کی تاریخ میں اپنی نوعیت کی پہلی ایمرجنسی ائیر لفٹ سروس ہے۔
ائیر لفٹ ڈرون: ایک جدید ریسکیو ٹیکنالوجی
محکمہ داخلہ پنجاب کے ترجمان کے مطابق، پنجاب حکومت نے جو ائیر لفٹ ڈرون حاصل کیا ہے، وہ جدید ترین خصوصیات کا حامل ہے اور 200 کلوگرام تک وزنی انسان یا سامان کو محفوظ مقام تک منتقل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
یہ ڈرون خاص طور پر ان علاقوں کے لیے موزوں ہے جہاں سیلاب کے باعث زمینی راستے منقطع ہو چکے ہوں اور متاثرہ افراد پھنسے ہوئے ہوں۔ ایسے حالات میں ہیلی کاپٹر یا کشتی کی رسائی ممکن نہ ہو تو یہ ائیر لفٹ ڈرون فوری طور پر موقع پر پہنچ کر متاثرہ افراد کو نکالنے میں مدد فراہم کر سکتا ہے۔
ملتان اور جنوبی پنجاب پر فوکس
ترجمان کے مطابق، ابتدائی طور پر اس ڈرون کو جنوبی پنجاب کے سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں بھیجا جا رہا ہے، خصوصاً ملتان کے آس پاس کے علاقوں میں جہاں حالیہ بارشوں نے شدید نقصان پہنچایا ہے۔ جنوبی پنجاب وہ خطہ ہے جہاں دریائے سندھ اور اس سے جڑے دیگر دریاؤں کی طغیانی سے ہر سال لاکھوں افراد متاثر ہوتے ہیں۔
سیکرٹری داخلہ پنجاب نے سول ڈیفنس کو ہدایت دی ہے کہ اس ڈرون کی فوری تعیناتی کی جائے تاکہ سیلاب میں پھنسے لوگوں کو بروقت ریسکیو کیا جا سکے۔
لاہور میں ٹیسٹ فلائٹس مکمل
ڈرون کو فیلڈ میں بھیجنے سے پہلے لاہور میں سول ڈیفنس کی ٹیموں نے اس کی ٹیسٹ فلائٹس مکمل کیں۔ ان ٹیسٹ فلائٹس کے دوران نہ صرف اس کی کارکردگی کو پرکھا گیا بلکہ ہنگامی صورتحال میں فوری ردعمل دینے کی تربیت بھی حاصل کی گئی۔
ماہرین کے مطابق، ڈرون کا استحکام، رفتار، لوڈ بیئرنگ کیپسٹی اور لوکیشن سسٹم انتہائی جدید ہے، جس کی بدولت یہ شدید موسم یا خطرناک حالات میں بھی مؤثر طریقے سے کام کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
مزید 10 ائیر لفٹ ڈرونز کی خریداری کا فیصلہ
پنجاب حکومت نے ایک قدم اور آگے بڑھتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ سول ڈیفنس کے لیے مزید 10 ائیر لفٹ ڈرونز خریدے جائیں گے۔ اس اقدام کا مقصد ریسکیو آپریشنز کو ڈی سینٹرلائز کرنا ہے تاکہ صرف لاہور یا بڑے شہروں پر انحصار نہ رہے، بلکہ ہر ریجن میں یہ سہولت میسر ہو۔
یہ فیصلہ نہ صرف پرو ایکٹو گورننس کی مثال ہے بلکہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ پنجاب حکومت قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے پائیدار حکمت عملی پر یقین رکھتی ہے۔
سول ڈیفنس ریزیلئنس کور: عوامی شمولیت کا نیا ماڈل
جدید ٹیکنالوجی کے ساتھ ساتھ انسانی وسائل کی شمولیت بھی اتنی ہی ضروری ہے۔ اسی تناظر میں محکمہ داخلہ پنجاب نے سول ڈیفنس ریزیلئنس کور کے قیام کا اعلان کیا ہے، جس کے تحت عام شہریوں کو بطور رضاکار رجسٹر کیا جا رہا ہے۔
سیکرٹری داخلہ پنجاب کے مطابق، رواں ہفتے 4,000 سے زائد افراد نے آن لائن پورٹل VCD.HOME.GOP.PK کے ذریعے اپنی رجسٹریشن مکمل کی ہے۔ ان رضاکاروں کو تربیت دے کر ریسکیو ٹیموں کا حصہ بنایا جائے گا تاکہ ہنگامی حالات میں ان کی خدمات حاصل کی جا سکیں۔
یہ اقدام صرف انتظامی نہیں بلکہ سماجی شراکت داری کی بہترین مثال بھی ہے، جہاں عام شہری خود بھی ریاستی کوششوں کا حصہ بنتے ہیں۔
ڈرون ریسکیو: پاکستان میں ایک نئی ابتداء
پاکستان میں قدرتی آفات جیسے زلزلے، سیلاب، لینڈ سلائیڈنگ، اور بارشوں سے ہونے والی تباہی عام ہے، مگر ریسکیو آپریشنز میں اکثر تکنیکی محدودیت اور تاخیر کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ڈرون ٹیکنالوجی کا استعمال اس خلا کو پُر کرنے کے لیے بہترین حل بن سکتا ہے۔
پنجاب حکومت کا یہ اقدام ملک بھر میں ایک مثالی ماڈل کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ مستقبل میں یہ ممکن ہے کہ دیگر صوبے بھی اسی ماڈل کو اپناتے ہوئے اپنی ریسکیو صلاحیتوں میں بہتری لائیں۔
فائدے اور امکانات
- فوری رسپانس:
ڈرون کی مدد سے متاثرہ علاقوں میں فوری رسپانس ممکن ہو جاتا ہے، جو انسانی جانیں بچانے میں فیصلہ کن کردار ادا کرتا ہے۔
- خطرناک علاقوں میں محفوظ رسائی:
جہاں انسان یا ہیلی کاپٹر کی رسائی خطرناک ہو، وہاں ڈرون بغیر انسانی جان کو خطرے میں ڈالے مؤثر طریقے سے ریسکیو کا کام انجام دے سکتا ہے۔
- لاگت میں کمی:
ہیلی کاپٹر یا بڑے ریسکیو مشنز کے مقابلے میں ڈرون کا استعمال کم لاگت اور زیادہ مؤثر ثابت ہو سکتا ہے۔
- مستقل نگرانی اور تجزیہ:
ڈرون کیمرے اور سینسرز کے ذریعے پانی کی سطح، تباہ شدہ علاقوں اور متاثرہ افراد کی درست معلومات حاصل کر کے بہتر حکمت عملی مرتب کی جا سکتی ہے۔
چیلنجز اور ذمہ داریاں
اگرچہ یہ ایک خوش آئند قدم ہے، مگر اس کے مؤثر اور پائیدار استعمال کے لیے کچھ چیلنجز بھی ہیں:
پائلٹس اور آپریٹرز کی تربیت: ڈرون کو مؤثر طریقے سے چلانے کے لیے تربیت یافتہ عملہ درکار ہوگا۔
مینٹی نینس اور سروسنگ: جدید ڈرونز کی مرمت اور دیکھ بھال کے لیے وسائل مختص کرنا ہوں گے۔
سائبر سیکیورٹی: چونکہ یہ ڈرون ڈیجیٹل کنٹرول سے چلتے ہیں، اس لیے ان کے ڈیٹا اور کنٹرول کو محفوظ بنانا ضروری ہوگا۔
پنجاب کا ایک وژنری قدم
پنجاب حکومت کا سیلاب متاثرین کے لیے ائیر لفٹ ڈرون سروس کا آغاز صرف ایک وقتی ریلیف اقدام نہیں بلکہ ایک ویژنری فیصلہ ہے۔ یہ فیصلہ ثابت کرتا ہے کہ حکومت نہ صرف چیلنجز کو سنجیدگی سے لے رہی ہے بلکہ ٹیکنالوجی اور عوامی شمولیت کو یکجا کر کے نئے حل تلاش کر رہی ہے۔
اگر یہ ماڈل مؤثر ثابت ہوا، تو یہ پاکستان بھر کے لیے ایک رول ماڈل بن سکتا ہے — جہاں ہر صوبہ اپنی عوام کے تحفظ کے لیے جدید ترین طریقے اپنا سکے
