چینی الیکٹرک وہیکلز ٹیکنالوجی – عالمی صنعت میں انقلاب
گزشتہ ایک دہائی میں چین نے الیکٹرک وہیکلز (EVs) کے شعبے میں حیران کن ترقی کی ہے۔ آج چینی الیکٹرک وہیکلز ٹیکنالوجی نہ صرف مقامی مارکیٹ پر چھائی ہوئی ہے بلکہ عالمی آٹو ڈیزائن کو بھی یکسر تبدیل کر رہی ہے۔ یورپ، جاپان اور امریکہ کی بڑی کمپنیوں نے بھی چین کی مہارت کا اعتراف کر لیا ہے اور اپنی نئی گاڑیوں کے ڈیزائن اور فیچرز میں چینی پلیٹ فارمز اور سافٹ ویئر کو شامل کرنا شروع کر دیا ہے۔
آؤڈی کا اعتراف – چین سے سیکھنے کا وقت
جرمن آٹو ساز کمپنی آؤڈی کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے واضح کیا ہے کہ چینی الیکٹرک وہیکلز ٹیکنالوجی نے یورپی کمپنیوں کے لیے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔ 2021 میں زیکر 001 ماڈل کی کامیابی نے یہ ثابت کر دیا کہ مستقبل میں عالمی مارکیٹ میں مقابلہ کرنے کے لیے چینی ٹیکنالوجی ناگزیر ہوگی۔
آؤڈی اور ایس اے آئی سی کی شراکت داری
آؤڈی نے چینی پارٹنر ایس اے آئی سی کے تعاون سے صرف 18 ماہ میں نیا ماڈل آؤڈی E5 اسپورٹ بیک تیار کیا۔ اس گاڑی میں:
- بیٹری
- الیکٹرک پاور ٹرین
- انفوٹینمنٹ سافٹ ویئر
- ڈرائیونگ اسسٹڈ سسٹمز
سبھی چینی کمپنی نے فراہم کیے۔ اس ماڈل کی قیمت 33 ہزار ڈالر رکھی گئی ہے اور ترسیل چین میں شروع ہو رہی ہے۔
جاپانی اور یورپی برانڈز بھی چین کے ساتھ
- ٹویوٹا نے جی اے سی کے ساتھ مشترکہ ماڈل پر کام شروع کر دیا ہے۔
- ووکس ویگن نے ایکس پینگ کے ساتھ شراکت داری کی ہے۔
- رینالٹ اور فورڈ بھی چینی پلیٹ فارمز پر گاڑیاں بنانے کی تیاری میں ہیں۔

یہ اس بات کی نشاندہی ہے کہ دنیا کی بڑی آٹو کمپنیاں چین کے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتیں۔
چائنا اِن سائیڈ – نئی حکمت عملی
ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ صورتحال 1990 کی دہائی کی ”انٹل ان سائیڈ“ مہم سے مشابہ ہے۔ اس وقت انٹیل نے اپنے پروسیسرز کے ذریعے کمپیوٹرز کو پریمیم برانڈ میں بدل دیا تھا۔ آج چینی الیکٹرک وہیکلز ٹیکنالوجی بھی دنیا بھر کی کار ساز کمپنیوں کو فوری اور سستے حل فراہم کر رہی ہے۔
عالمی سطح پر مثالیں
- لیپ موٹر اور اسٹیلانٹس کی شراکت داری
- رینالٹ کی ڈیشیا اسپرنگ
- شنگھائی میں تیار ہونے والی نئی ٹوِنگو
یہ تمام پروجیکٹس اس بات کی واضح مثالیں ہیں کہ چینی پلیٹ فارمز عالمی صنعت کو کس طرح بدل رہے ہیں۔
خدشات اور چیلنجز
سابق ایسٹن مارٹن سی ای او اینڈی پالمر کے مطابق:
"اگر عالمی کار ساز مکمل طور پر چینی الیکٹرک وہیکلز ٹیکنالوجی پر انحصار کریں گے تو طویل عرصے میں وہ صرف ریٹیلرز بن کر رہ جائیں گے۔”
یعنی برانڈز کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی ٹیکنالوجی اور جدت بھی شامل کریں تاکہ اپنی انفرادیت اور شناخت کو برقرار رکھ سکیں۔
سرمایہ اور وقت کی بچت
چینی پلیٹ فارمز استعمال کرنے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ کمپنیوں کو نئی گاڑیاں تیار کرنے کے لیے کم سرمایہ اور کم وقت درکار ہوتا ہے۔ اس سے مارکیٹ میں تیزی سے مقابلہ بڑھ رہا ہے اور صارفین کے لیے مزید آپشنز سامنے آ رہے ہیں۔
مستقبل کا منظرنامہ
آٹو ماہرین کا ماننا ہے کہ آئندہ دہائی میں دنیا کی نصف سے زیادہ الیکٹرک گاڑیاں براہِ راست یا بالواسطہ طور پر چینی الیکٹرک وہیکلز ٹیکنالوجی پر مبنی ہوں گی۔ چین کی تیز رفتار ترقی نے دنیا کو مجبور کر دیا ہے کہ وہ اس کے ساتھ تعاون کرے۔
چین نے عالمی آٹو انڈسٹری میں اپنی برتری ثابت کر دی ہے۔ چینی الیکٹرک وہیکلز ٹیکنالوجی نہ صرف مستقبل کی گاڑیوں کو تشکیل دے رہی ہے بلکہ عالمی کار سازوں کو نئی سمت فراہم کر رہی ہے۔ تاہم، برانڈز کے لیے اپنی شناخت اور ٹیکنالوجی برقرار رکھنا لازمی ہوگا تاکہ وہ صرف فروخت کنندہ نہ بن جائیں بلکہ صنعت میں اپنی قیادت برقرار رکھ سکیں۔