گلگت بلتستان زلزلہ: اسکردو اور استور میں 3.7 شدت کے جھٹکے
گلگت بلتستان میں زلزلے کے جھٹکے – ایک قدرتی انتباہ
14 ستمبر 2025 کو گلگت، اسکردو، استور اور گردونواح کے علاقوں میں اچانک زمین لرز اُٹھی۔ دوپہر کے اوقات میں محسوس کیے گئے زلزلے کے جھٹکوں نے نہ صرف زمین کو ہلایا بلکہ عوام کے دلوں میں ایک بار پھر خوف کی لہر دوڑا دی۔ پاکستان کے زلزلہ پیما مرکز کے مطابق، اس زلزلے کی شدت 3.7 ریکٹر اسکیل پر ریکارڈ کی گئی، جبکہ اس کی گہرائی زیرِ زمین 25 کلومیٹر تھی۔ زلزلے کا مرکز اسکردو سے جنوب مغرب کی جانب 34 کلومیٹر کی مسافت پر واقع تھا۔
زلزلے کی نوعیت اور سائنسی تجزیہ
ریکٹر اسکیل پر 3.7 شدت کا زلزلہ نسبتاً ہلکی نوعیت کا سمجھا جاتا ہے، تاہم یہ اس بات کا واضح عندیہ ہوتا ہے کہ زمین کی اندرونی پرتوں میں توانائی کا اخراج ہو رہا ہے۔ زمین کے نیچے موجود ٹیکٹونک پلیٹس جب ایک دوسرے سے ٹکراتی ہیں یا سرکتی ہیں تو ان کے نتیجے میں توانائی خارج ہوتی ہے جو زمین کی سطح پر زلزلے کی صورت میں محسوس کی جاتی ہے۔ 25 کلومیٹر کی گہرائی میں آنے والے زلزلے کو "شالو” (Shallow) سمجھا جاتا ہے، اور ایسے زلزلے عام طور پر زمین کی سطح پر زیادہ شدت سے محسوس ہوتے ہیں، خواہ ان کی ریکٹر اسکیل پر شدت کم ہی کیوں نہ ہو۔
علاقے کی حساسیت اور ماضی کا پس منظر
گلگت بلتستان اور بالخصوص اسکردو، استور اور گلگت کا علاقہ جغرافیائی لحاظ سے زلزلہ خیز زون میں شمار ہوتا ہے۔ یہ خطہ "ہمالیائی زلزلہ بیلٹ” کے قریب واقع ہے جہاں ایشیائی اور انڈین پلیٹس کے درمیان ٹکراؤ جاری ہے۔ اس سے قبل بھی متعدد مرتبہ اس خطے میں شدید زلزلے آ چکے ہیں، جن میں 2005 کا قیامت خیز زلزلہ آج بھی اہلِ پاکستان کے ذہنوں میں تازہ ہے، جس نے ہزاروں جانیں لے لیں اور لاکھوں افراد کو بے گھر کر دیا۔
اگرچہ اس بار زلزلے کی شدت کم تھی اور کسی بڑے نقصان یا جانی نقصان کی اطلاع موصول نہیں ہوئی، لیکن اس قسم کے زلزلے مستقبل کے ممکنہ خطرات کی طرف اشارہ ضرور کرتے ہیں۔
عوام کا ردعمل – خوف اور احتیاط
زلزلے کے جھٹکے محسوس ہوتے ہی علاقے کے مکین گھروں، دفاتر اور اسکولوں سے باہر نکل آئے۔ کئی افراد نے کھلی جگہوں میں پناہ لی، جبکہ کچھ نے فوری طور پر اپنے پیاروں کو فون کر کے ان کی خیریت دریافت کی۔ گلگت، اسکردو اور استور جیسے علاقوں میں چونکہ زلزلے کا خطرہ ہر وقت موجود رہتا ہے، اس لیے عوام کسی حد تک ذہنی طور پر تیار رہتی ہے، تاہم اچانک جھٹکوں کا خوف اپنی جگہ باقی رہتا ہے۔
مقامی شہریوں کے مطابق زلزلہ چند سیکنڈز پر محیط تھا، لیکن جھٹکے واضح طور پر محسوس کیے گئے۔ کچھ مقامات پر کھڑکیاں اور دروازے ہلنے لگے، جبکہ بعض افراد نے گھروں کی دیواروں میں معمولی دراڑوں کی نشاندہی بھی کی۔
انتظامیہ اور ریسکیو اداروں کا فوری ردعمل
زلزلے کے فوری بعد مقامی ضلعی انتظامیہ، ریسکیو 1122، اور پولیس نے متعلقہ علاقوں میں سروے شروع کر دیا۔ ابتدائی رپورٹوں کے مطابق کسی قسم کے جانی یا مالی نقصان کی اطلاع نہیں ملی۔ تاہم، احتیاطاً ہسپتالوں کو الرٹ کر دیا گیا اور ممکنہ ہنگامی صورتحال کے لیے تیار رہنے کی ہدایت دی گئی۔
نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (NDMA) اور گلگت بلتستان ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (GBDMA) نے بھی صورتحال پر نظر رکھی اور رابطہ کاری کا عمل جاری رکھا۔ اس قسم کی فوری کارروائیاں اس بات کی دلیل ہیں کہ متعلقہ ادارے کسی بڑے سانحے سے بچنے کے لیے چوکنا ہیں۔
زلزلے کے سائے میں زندگی
گلگت بلتستان ایک حسین وادی ہے جو اپنی قدرتی خوبصورتی، سیاحت، اور ثقافتی ورثے کی وجہ سے مشہور ہے۔ لیکن بدقسمتی سے یہ علاقہ قدرتی آفات، بالخصوص زلزلوں، برفانی تودوں اور لینڈ سلائیڈنگ جیسی خطرناک صورتحال سے بھی دوچار ہوتا رہتا ہے۔
ان علاقوں میں زلزلوں کے اثرات اس لیے بھی زیادہ محسوس ہوتے ہیں کیونکہ یہاں کی عمارات میں جدید زلزلہ پروف تعمیراتی ٹیکنالوجی کا فقدان ہے۔ اکثر مکانات پتھروں اور مٹی سے بنائے جاتے ہیں، جو زلزلے کی صورت میں بہت جلد منہدم ہو سکتے ہیں۔ لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت اور مقامی انتظامیہ اس جانب خصوصی توجہ دیں اور مستقبل کے خطرات سے بچاؤ کے لیے جامع حکمت عملی ترتیب دیں۔
عوامی آگاہی اور تربیت کی ضرورت
زلزلے جیسے قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے صرف حکومتی اقدامات کافی نہیں ہوتے، بلکہ عوامی سطح پر آگاہی اور عملی تربیت بھی نہایت اہم ہوتی ہے۔ اسکولوں، کالجوں اور کمیونٹی سینٹرز میں باقاعدہ تربیتی ورکشاپس کا انعقاد، ہنگامی اخراج کی مشقیں، اور ابتدائی طبی امداد (First Aid) کی تربیت عوام کو محفوظ بنانے میں بنیادی کردار ادا کر سکتی ہے۔
حالیہ زلزلہ ایک وارننگ کے طور پر لیا جانا چاہیے کہ ہم کس حد تک تیار ہیں؟ اگر کل کو ایسا ہی زلزلہ 6 یا 7 شدت کا ہو، تو ہمارے پاس کیا پلان ہے؟ کتنے اسپتال، فائر بریگیڈ اور ریسکیو سروسز فعال حالت میں ہیں؟ یہ وہ سوالات ہیں جن پر سنجیدہ غور کرنے کی ضرورت ہے۔
میڈیا اور سوشل میڈیا کا کردار
اس زلزلے کے بعد میڈیا نے فوری طور پر معلومات فراہم کیں، جس سے عوام کو بروقت آگاہی ملی۔ تاہم سوشل میڈیا پر بعض افواہیں بھی گردش کرنے لگیں، جن میں زلزلے کی شدت کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا۔ ایسی صورتحال میں عوام کو چاہیے کہ صرف مستند ذرائع سے معلومات حاصل کریں اور افواہوں سے گریز کریں۔
قدرتی اشارہ، انسانی تیاری
گلگت، اسکردو، اور استور میں محسوس کیے گئے زلزلے کے جھٹکے بظاہر کسی بڑے نقصان کا سبب تو نہیں بنے، لیکن یہ ایک سنگین یاددہانی ہے کہ قدرت کب، کہاں اور کیسے اپنی طاقت دکھا دے، کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ 3.7 شدت کا زلزلہ اگرچہ کمزور سمجھا جاتا ہے، لیکن یہ ایک تنبیہ ہے کہ ہم ہر وقت تیار رہیں۔ جدید دور میں جہاں ہم ترقی کی منازل طے کر رہے ہیں، وہاں ہمیں قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے بھی جدید سائنسی، معاشرتی اور انتظامی حکمتِ عملی اپنانا ہو گی۔
عوام، انتظامیہ، اور حکومت — تینوں کو مل کر کام کرنا ہو گا تاکہ کل اگر زمین پھر لرزے، تو ہم صرف گھروں سے باہر نہ نکلیں، بلکہ محفوظ بھی رہیں۔

