لکسمبرگ کا فلسطین کو تسلیم کرنے کا فیصلہ: غزہ بحران کی روشنی میں
یورپی ملک لکسمبرگ نے فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کرنے کا تاریخی فیصلہ کیا ہے، جو فلسطینی عوام کی جدوجہد کے لیے ایک اہم پیش رفت ہے۔ یہ فیصلہ غزہ میں جاری انسانی بحران اور عالمی سطح پر دو ریاستی حل کی بڑھتی ہوئی حمایت کی روشنی میں سامنے آیا ہے۔ اس مضمون میں ہم فلسطین کو تسلیم کرنا کے اس فیصلے کی تفصیلات، پس منظر، اور عالمی اثرات پر روشنی ڈالیں گے، اور یہ جانیں گے کہ یہ اقدام فلسطینیوں کے لیے کیا معنی رکھتا ہے۔
لکسمبرگ کا فیصلہ: تفصیلات اور اعلان
لکسمبرگ کے وزیر اعظم لک فریڈن اور وزیر خارجہ زیویئر بیٹل نے 15 ستمبر 2025 کو پارلیمانی کمیشن کو بتایا کہ ان کا ملک فلسطین کو تسلیم کرنا چاہتا ہے۔ یہ فیصلہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس (22 ستمبر 2025) میں حتمی شکل اختیار کرے گا۔ وزیر اعظم فریڈن نے کہا کہ "غزہ میں حالیہ مہینوں میں حالات ناقابل برداشت ہو چکے ہیں، اور فلسطین کو تسلیم کرنا دو ریاستی حل کی طرف ایک اہم قدم ہے۔” اس اعلان سے قبل لکسمبرگ نے فرانس، بیلجیئم، اور دیگر یورپی ممالک کے ساتھ مشاورت کی تاکہ ایک متحدہ موقف اپنایا جا سکے۔
یہ فیصلہ فرانس اور سعودی عرب کی مشترکہ کانفرنس کے نتائج کی روشنی میں کیا گیا، جس میں فلسطینی ریاست کی تشکیل پر زور دیا گیا۔ فلسطین کو تسلیم کرنا لکسمبرگ کی خارجہ پالیسی میں ایک اہم موڑ ہے، جو انسانی حقوق اور بین الاقوامی امن کے لیے اس کے عزم کو ظاہر کرتا ہے۔
غزہ کا انسانی بحران: فیصلے کی وجوہات
غزہ کی پٹی میں جاری تنازعہ نے عالمی برادری کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ اکتوبر 2023 سے اسرائیلی فوج کی کارروائیوں میں 60,000 سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، جن میں بچوں اور خواتین کی تعداد نمایاں ہے۔ غزہ میں خوراک، صاف پانی، اور طبی امداد کی شدید کمی ہے، اور بنیادی ڈھانچہ تباہ ہو چکا ہے۔ لکسمبرگ کے وزیر اعظم نے کہا کہ یہ انسانی بحران فلسطین کو تسلیم کرنا کو ناگزیر بنا دیتا ہے، کیونکہ یہ فلسطینی عوام کے حقوق کی بحالی کی طرف ایک قدم ہے۔
غزہ کے ہسپتالوں، اسکولوں، اور رہائشی علاقوں پر بمباری نے صورتحال کو مزید خراب کیا ہے۔ عالمی اداروں جیسے یونیسیف اور ریڈ کراس نے رپورٹ کیا ہے کہ ہزاروں بچے بھوک اور بیماریوں کا شکار ہیں۔ فلسطین کو تسلیم کرنا اس بحران کے حل کی طرف ایک علامتی اور عملی اقدام ہے، جو اسرائیل پر جنگ بندی کے لیے دباؤ بڑھا سکتا ہے۔
عالمی سطح پر دو ریاستی حل کی تحریک
فلسطین کو تسلیم کرنا عالمی سطح پر دو ریاستی حل کی حمایت کا حصہ ہے۔ دو ریاستی حل کا تصور فلسطین کو 1967 کی سرحدوں پر ایک آزاد ریاست بنانے کی تجویز دیتا ہے، جس کا دارالحکومت مشرقی یروشلم ہو۔ لکسمبرگ کا فیصلہ اس تحریک کو تقویت دیتا ہے، جو حالیہ برسوں میں کمزور پڑ گئی تھی۔
فرانس، بیلجیئم، برطانیہ، آسٹریلیا، اور کینیڈا نے بھی فلسطین کو تسلیم کرنا کا عندیہ دیا ہے۔ فرانس کے صدر ایمانوئل مکرون نے جولائی 2025 میں کہا کہ ان کا ملک جلد فلسطین کو تسلیم کرے گا۔ بیلجیئم نے حماس کی غیر موجودگی اور یرغمالیوں کی رہائی کی شرط پر یہ فیصلہ کیا، جبکہ کینیڈا نے فلسطینی اتھارٹی کے انتخابات کی شرط رکھی ہے۔ یہ ممالک مل کر اقوام متحدہ میں ایک مضبوط موقف پیش کریں گے۔
یورپی یونین کا کردار اور چیلنجز
یورپی یونین (EU) میں فلسطین کو تسلیم کرنا ایک پیچیدہ مسئلہ رہا ہے۔ سویڈن نے 2014 میں فلسطین کو تسلیم کیا، جبکہ آئرلینڈ، سپین، اور ناروے نے مئی 2024 میں یہ قدم اٹھایا۔ اب لکسمبرگ، فرانس، بیلجیئم، اور مالٹا اس فہرست میں شامل ہو رہے ہیں۔ تاہم، جرمنی اور اٹلی جیسے ممالک ابھی ہچکچاہٹ کا شکار ہیں، کیونکہ وہ اسرائیل کی سلامتی کو ترجیح دیتے ہیں۔
فلسطین کو تسلیم کرنا EU کے لیے ایک چیلنج ہے، کیونکہ یہ اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات کو متاثر کر سکتا ہے۔ لیکن غزہ کی تباہی نے یورپی ممالک کو مجبور کیا کہ وہ فلسطینی حقوق کی حمایت میں آواز اٹھائیں۔ لکسمبرگ کا فیصلہ دیگر چھوٹے یورپی ممالک کو بھی متاثر کر سکتا ہے۔
فلسطین کی بین الاقوامی حیثیت
فلسطین 2012 سے اقوام متحدہ کا غیر رکن مبصر ریاست (نان ممبر آبزرور سٹیٹ) ہے۔ فلسطین کو تسلیم کرنا اسے مکمل رکنیت کی طرف لے جا سکتا ہے، جو فلسطینیوں کو زیادہ سفارتی طاقت دے گی۔ 147 ممالک پہلے ہی فلسطین کو تسلیم کر چکے ہیں، اور لکسمبرگ جیسے نئے ممالک کی شمولیت اس تعداد کو بڑھائے گی۔ فلسطینی اتھارٹی نے 2025 میں ایک سفارتی مہم شروع کی، جس میں سعودی عرب اور فرانس کی حمایت شامل ہے۔
تسلیم کی شرائط میں 1967 کی سرحدیں، مشرقی یروشلم کو دارالحکومت، اور حماس کی غیر موجودگی شامل ہیں۔ یہ شرائط تنازعہ کو پیچیدہ بناتی ہیں، لیکن فلسطین کو تسلیم کرنا فلسطینیوں کے لیے امید کی کرن ہے۔
ممکنہ اثرات
فلسطین کو تسلیم کرنا عالمی سیاست پر گہرے اثرات مرتب کرے گا۔ یہ اسرائیل پر دباؤ بڑھائے گا کہ وہ غزہ میں جنگ بندی کرے اور قبضہ ختم کرے۔ تاہم، اسرائیل اور اس کے اتحادی، خاص طور پر امریکا، اسے "دہشت گردی کی حمایت” قرار دے سکتے ہیں۔ فلسطینیوں کے لیے یہ ایک سفارتی فتح ہوگی، جو ان کی آزاد ریاست کی بنیاد رکھے گی۔
چیلنجز میں حماس کا کردار، اسرائیلی پالیسیاں، اور عرب ممالک کی رضامندی شامل ہیں۔ سعودی عرب نے فلسطین کی حمایت کی، لیکن حماس کی تحلیل کی شرط رکھی ہے۔ لکسمبرگ کا فیصلہ دیگر ممالک کو بھی اس سمت میں لے جا سکتا ہے۔
پاکستان اور مسلم دنیا کی حمایت
پاکستان نے ہمیشہ فلسطین کی حمایت کی ہے۔ لکسمبرگ کے فیصلے کو پاکستان کی وزارت خارجہ نے سراہا ہے، اور اسے اسلامی تعاون تنظیم (OIC) میں مزید حمایت مل سکتی ہے۔ مسلم دنیا میں فلسطین کو تسلیم کرنا ایک عظیم فتح سمجھا جائے گا، جو فلسطینی جدوجہد کو تقویت دے گا۔
لکسمبرگ کا فلسطین کو تسلیم کرنا ایک تاریخی قدم ہے جو غزہ کے بحران اور دو ریاستی حل کی ضرورت کو اجاگر کرتا ہے۔ یہ فیصلہ فلسطینی عوام کے لیے امید کی کرن ہے اور عالمی برادری کو انصاف کی طرف بڑھنے کی دعوت دیتا ہے۔ لکسمبرگ کا یہ اقدام دیگر ممالک کے لیے ایک مثال ہے کہ وہ فلسطینیوں کے حقوق کی حمایت کریں۔ فلسطین کی جدوجہد جاری ہے، اور اس طرح کے فیصلے ان کی آزادی کے خواب کو حقیقت کے قریب لاتے ہیں۔
پاکستان کا فلسطینی عوام کے حقوق کیلئے ہر فورم پر بھرپور عزم
