آٹے کی قیمتوں میں اضافہ: سندھ حکومت اور فلور ملوں میں اختلاف شدت اختیار کر گیا
پاکستان میں آٹا ایک بنیادی اور ضروری غذائی جزو کے طور پر ہر گھر کی ضرورت ہے۔ حالیہ دنوں میں سندھ، بالخصوص کراچی میں آٹے کی قیمتوں میں اچانک اضافہ ایک بار پھر عوام کے لیے پریشانی کا باعث بن رہا ہے۔ ریٹیل سطح پر آٹے کی فی کلو قیمت میں 3 روپے کا اضافہ دیکھا گیا ہے، جس کے پیچھے گندم کی قیمتوں میں اضافے اور فلور ملز کی جانب سے سرکاری نرخوں سے زیادہ قیمت پر سپلائی جیسے عوامل کارفرما ہیں۔
سرکاری نرخ اور مارکیٹ کی حقیقت میں فرق
ریٹیل گروسرز ایسوسی ایشن کے چیئرمین فرید قریشی کے مطابق، حکومت سندھ نے 22 ستمبر کو آٹے کی تھوک (ہول سیل) قیمت 94 روپے اور خوردہ (ریٹیل) قیمت 98 روپے فی کلو گرام مقرر کی تھی۔ تاہم، گزشتہ چند دنوں میں گندم کی قیمت میں 7 روپے فی کلو اضافہ ہوا ہے، جس کی وجہ سے مارکیٹ میں آٹے کی قیمت بھی بڑھ گئی ہے۔
انہوں نے واضح کیا کہ اگر فلور ملیں مقررہ 94 روپے فی کلو کی قیمت پر آٹا فراہم کریں، تو ریٹیلرز اسے حکومتی نرخ 98 روپے فی کلو پر فروخت کر سکتے ہیں۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ فلور ملز نہ صرف مقررہ نرخوں پر عمل نہیں کر رہیں بلکہ وہ سرکاری قیمتوں سے کہیں زیادہ پر آٹا فراہم کر رہی ہیں۔
فلور ملز کی قیمتیں: حکومت کی خلاف ورزی؟
فرید قریشی کے مطابق، فلور ملز کی جانب سے فی کلو گرام "ڈھائی نمبر آٹا” 104 روپے میں اور "فائن آٹا” 112 روپے میں فراہم کیا جا رہا ہے، جو کہ حکومت کے مقررہ نرخوں—بالترتیب 94 اور 100 روپے—سے کہیں زیادہ ہیں۔
انہوں نے اس پر شدید اعتراض کرتے ہوئے کہا:
"فلور ملیں آٹے کی فراہمی میں من مانی کر رہی ہیں، جس کا خمیازہ صارفین کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ حکومت کو اس صورتحال کا فوری نوٹس لینا ہوگا اور اپنی رٹ قائم کرنا ہوگی۔”
فلور ملز کا مؤقف: طلب و رسد کے مطابق قیمتیں
دوسری جانب، آل پاکستان فلور ملز ایسوسی ایشن کے چیئرمین عبدالجنید عزیز نے ایکسپریس کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ گندم کی فی کلو قیمت 86 روپے سے بڑھ کر 93 روپے ہو چکی ہے۔ ان کے مطابق، یہ اضافہ طلب و رسد کے قدرتی نظام کے تحت ہوا ہے اور مارکیٹ میں کسی قسم کا مصنوعی بحران نہیں پایا جا رہا۔
ان کا کہنا تھا:
"اگرچہ قیمتوں میں کچھ اضافہ ہوا ہے، لیکن فلور ملز فی کلو ڈھائی نمبر آٹا 100 سے 101 روپے اور فائن آٹا 107 سے 107.50 روپے میں فراہم کر رہی ہیں، جو کہ مارکیٹ کی موجودہ صورتحال کے مطابق معقول قیمتیں ہیں۔”
پنجاب کی "غیر اعلانیہ صوبہ بندی” اور اس کے اثرات
عبدالجنید عزیز نے ایک اور اہم نکتہ اٹھایا کہ پنجاب حکومت کی جانب سے غیر اعلانیہ طور پر گندم کی صوبہ بندی (Provisional Restriction) برقرار ہے، یعنی پنجاب سے دیگر صوبوں کو گندم کی آزادانہ سپلائی محدود ہے۔
اس صورتحال کا براہِ راست اثر سندھ اور خصوصاً کراچی کی فلور ملز پر پڑ رہا ہے، جنہیں گندم کی فراہمی کے لیے زیادہ قیمت ادا کرنا پڑ رہی ہے۔
سندھ میں گندم کے ذخائر کی صورتحال
عبدالجنید عزیز نے اس تاثر کی نفی کی کہ ملک میں گندم کا کوئی بڑا بحران موجود ہے۔ ان کے مطابق، سندھ حکومت کے پاس اس وقت 1 کروڑ 30 لاکھ ٹن گندم کے ذخائر موجود ہیں، جب کہ نجی شعبے اور فلور ملز کے پاس بھی گندم کے معقول ذخائر پائے جاتے ہیں۔
البتہ انہوں نے خبردار کیا کہ دسمبر اور جنوری کے مہینوں میں جب گندم کی طلب میں اضافہ ہوتا ہے، سندھ کی فلور ملوں کو وافر ذخائر کی ضرورت پیش آئے گی، جس کی پیشگی تیاری ضروری ہے۔
عوامی مشکلات: بڑھتے دام، گھٹتی قوتِ خرید
حالیہ اضافے کے نتیجے میں ایک طرف فلور ملز اور ریٹیلرز کی جنگ جاری ہے، تو دوسری جانب عوام کے لیے آٹے کی دستیابی مہنگی اور مشکل ہوتی جا رہی ہے۔ کم آمدنی والے طبقے کے لیے 3 سے 5 روپے فی کلو کا اضافہ بہت بڑا بوجھ ہے، خاص طور پر جب گھریلو استعمال کے لیے ماہانہ 20 سے 30 کلو آٹے کی ضرورت ہوتی ہے۔
اس اضافے کا مطلب ہے کہ عام شہری کے لیے 60 سے 150 روپے کا اضافی بوجھ صرف آٹے پر ہی پڑ رہا ہے، جو دیگر اشیاء کی قیمتوں کے اضافے کے ساتھ مل کر مہنگائی کا طوفان بن چکا ہے۔
کیا حکومت واقعی بے بس ہے؟
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب حکومت سندھ نے آٹے کی قیمتیں مقرر کر دی ہیں تو پھر ان پر عملدرآمد کیوں نہیں ہو رہا؟ کیوں فلور ملز ان نرخوں سے انحراف کر کے زائد قیمتوں پر آٹا فروخت کر رہی ہیں؟ اگر قیمتوں پر عملدرآمد نہ ہو، تو پھر سرکاری نرخوں کا اعلان صرف نمائشی اقدام رہ جاتا ہے۔
فرید قریشی نے بالکل بجا مطالبہ کیا کہ حکومت سندھ کو مارکیٹ میں چیک اینڈ بیلنس کا نظام موثر بنانا ہوگا۔ صرف قیمتیں مقرر کرنا کافی نہیں، بلکہ انہیں عملی طور پر نافذ کروانا بھی حکومت کی ذمہ داری ہے۔
حل کیا ہے؟
تجزیہ کاروں کے مطابق، موجودہ صورتحال کا حل درج ذیل اقدامات سے ممکن ہے:
- حکومتی نگرانی سخت کی جائے اور فلور ملز کو سرکاری نرخوں پر آٹا فراہم کرنے کا پابند کیا جائے؛
- ریٹیلرز اور صارفین کے تحفظ کے لیے پرائس کنٹرول کمیٹیاں فعال ہوں؛
- پنجاب کی جانب سے گندم کی صوبہ بندی ختم کی جائے تاکہ دیگر صوبے بھی سستی گندم حاصل کر سکیں؛
- سبسڈی نظام کو شفاف بنایا جائے تاکہ واقعی مستحق افراد کو ریلیف مل سکے؛
- ذخیرہ اندوزوں کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کیا جائے۔
آٹے کا بحران نہیں، لیکن بدانتظامی ضرور ہے
حالیہ آٹا قیمتوں کا بحران دراصل ایک انتظامی ناکامی کی نشاندہی کرتا ہے، نہ کہ مکمل قلت یا مصنوعی بحران کی۔ گندم موجود ہے، فلور ملز کام کر رہی ہیں، حکومت نے قیمتیں مقرر کی ہیں—پھر مسئلہ کہاں ہے؟
مسئلہ ہے عملدرآمد میں، شفافیت میں، اور سیاسی و انتظامی عزم میں۔ جب تک حکومت اپنی رٹ قائم نہیں کرے گی، جب تک منافع خوروں کو لگام نہیں دی جائے گی، تب تک آٹا، جو کہ ہر شہری کی روزمرہ کی بنیادی ضرورت ہے، عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہوتا جائے گا۔

Comments 1