پاکستان میں سماجی بہبود اور غریب خاندانوں کی معاونت کے لیے مختلف ادوار میں متعدد پروگرامز متعارف کرائے گئے۔ ان میں سب سے اہم بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام ہے جس کا آغاز 2008 میں کیا گیا۔ اس پروگرام کا بنیادی مقصد غربت میں کمی، خواتین کو بااختیار بنانا اور مالی مشکلات کا شکار گھرانوں کو سہارا دینا تھا۔ تاہم وقت کے ساتھ ساتھ اس کے شفافیت اور اعداد و شمار کے درست استعمال پر اعتراضات اٹھائے جاتے رہے ہیں۔ حالیہ دنوں میں وزیراعظم کے مشیر اور سینیٹر رانا ثنااللہ نے واضح طور پر کہا ہے کہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے ڈیٹا پر ہمارے شدید اعتراضات ہیں
رانا ثنااللہ کا موقف
پریس کانفرنس میں رانا ثنااللہ نے کہا کہ پنجاب کے حصے کے پانی کی تقسیم کے حوالے سے وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے اپنے صوبے کے حق کی بات کی ہے اور یہ کسی دوسرے صوبے کے خلاف نہیں تھا۔ تاہم اصل نکتہ انہوں نے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے حوالے سے اٹھایا کہ موجودہ ڈیٹا ناقابلِ اعتماد ہے اور اس پر نظرِ ثانی کی ضرورت ہے۔ ان کا کہنا تھا:
"بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے ڈیٹا پر ہمارے شدید اعتراضات ہیں کیونکہ یہ حقائق کی درست عکاسی نہیں کرتا۔”
پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) میں اختلافات
یہ معاملہ صرف ایک فلاحی پروگرام تک محدود نہیں بلکہ صوبائی اور سیاسی اختلافات کی بھی عکاسی کرتا ہے۔ پیپلز پارٹی کے رہنما مریم نواز کے اندازِ گفتگو پر تنقید کر چکے ہیں۔ قمر زمان کائرہ کے مطابق وزیراعلیٰ پنجاب کے الفاظ مناسب نہیں تھے۔ دوسری جانب ن لیگ کے رہنما اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ اصل مسئلہ شفاف ڈیٹا ہے جو غریب عوام کی حق تلفی کو روک سکے۔
بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کی اہمیت
پاکستان کی تاریخ میں یہ پروگرام غریب خاندانوں کو مالی امداد فراہم کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ رہا ہے۔ لاکھوں خاندان ہر ماہ اس سکیم سے براہِ راست فائدہ اٹھاتے ہیں۔ تاہم اگر اس کا ڈیٹا درست نہ ہو تو:
- حقدار خاندان محروم رہ سکتے ہیں۔
- غیر مستحق افراد کو فائدہ پہنچ سکتا ہے۔
- کرپشن اور بدعنوانی کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔
یہی وہ وجوہات ہیں جن پر رانا ثنااللہ نے اعتراض کیا اور بہتر پالیسی کے لیے اقدامات کی ضرورت پر زور دیا۔
عظمیٰ بخاری کا بیان
وزیر اطلاعات پنجاب عظمیٰ بخاری نے کہا کہ پیپلزپارٹی کی طرف سے مریم نواز پر تنقید بلاجواز ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جس جماعت کی لیڈر ایک خاتون رہ چکی ہیں، وہی جماعت آج ایک خاتون لیڈر کے خلاف بیان بازی کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایسی سیاست سے عوامی مسائل حل نہیں ہوں گے، اصل توجہ ڈیٹا کی شفافیت پر ہونی چاہیے۔

شفافیت کی ضرورت
دنیا کے کئی ممالک میں سوشل ویلفیئر پروگرامز کی کامیابی کا انحصار درست ڈیٹا پر ہوتا ہے۔ اگر اعداد و شمار میں غلطی یا جانبداری شامل ہو تو پروگرام ناکام ہو جاتے ہیں۔ پاکستان میں بھی یہی مسئلہ سامنے آیا ہے۔ رانا ثنااللہ کے اعتراض نے اس امر کی نشاندہی کی ہے کہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کو مؤثر بنانے کے لیے نئے سروے، ڈیجیٹل مانیٹرنگ اور شفاف حکمت عملی اپنانے کی ضرورت ہے۔
مستقبل کی سمت
ماہرین کے مطابق حکومت کو درج ذیل اقدامات کرنے چاہئیں:
- نادرا کے ریکارڈ کے ساتھ ڈیٹا کا ربط قائم کیا جائے۔
- غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے والوں کی از سر نو فہرست تیار ہو۔
- پروگرام کو سیاسی اختلافات سے الگ رکھا جائے۔
- خواتین کو براہِ راست ادائیگی کے لیے بائیومیٹرک نظام کو مزید بہتر کیا جائے۔
- کرپشن روکنے کے لیے تھرڈ پارٹی آڈٹ کیا جائے۔
پنجاب حکومت کا بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کو سیلاب متاثرین کیلئے استعمال نہ کرنا غیر ذمہ دارانہ ہوگا، آصفہ بھٹو
رانا ثنااللہ کے اعتراضات ایک بار پھر اس حقیقت کو نمایاں کرتے ہیں کہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام جیسے بڑے فلاحی منصوبے کی کامیابی شفافیت اور اعتماد پر منحصر ہے۔ اگر حکومت اس پر توجہ نہ دے تو نہ صرف غریب عوام محروم رہیں گے بلکہ سیاسی تناؤ بھی مزید بڑھے گا۔ اس لیے لازم ہے کہ ڈیٹا پر اٹھائے گئے اعتراضات کو سنجیدگی سے لیا جائے اور اس پروگرام کو عوامی اعتماد کی علامت بنایا جائے۔