چینی سائنس دانوں نے تیار کی نئی لیتھیئم میٹل بیٹری جو ٹیسلا سے دگنی انرجی ڈینسٹی رکھتی ہے
نئی ایجاد کا اعلان
چین کی ٹیانجِن یونیورسٹی کے سائنس دانوں نے ایک انقلابی ایجاد پیش کی ہے۔ یہ ایجاد ہے چینی سائنس دانوں کی نئی لیتھیئم میٹل بیٹری جو توانائی ذخیرہ کرنے کی دنیا میں ایک بڑا سنگ میل قرار دی جا رہی ہے۔ اس بیٹری کی انرجی ڈینسٹی 600 واٹ فی کلو گرام سے بھی زیادہ ہے، جو اسے اب تک کی جدید ترین بیٹریوں میں شامل کرتی ہے۔
انرجی ڈینسٹی کیا ہے؟
انرجی ڈینسٹی ایک ایسا پیمانہ ہے جو یہ بتاتا ہے کہ کسی ڈیوائس یا بیٹری میں فی یونٹ ماس کتنی توانائی ذخیرہ ہو سکتی ہے۔ جتنی زیادہ انرجی ڈینسٹی ہوگی، بیٹری کا سائز اور وزن اتنا ہی کم ہوگا لیکن کارکردگی زیادہ۔ اسی اصول پر چینی سائنس دانوں کی نئی لیتھیئم میٹل بیٹری نے دنیا بھر کے ماہرین کو حیران کر دیا ہے کیونکہ یہ موجودہ بیٹریوں سے کہیں زیادہ طاقتور اور ہلکی ہے۔
ٹیسلا اور بی وائی ڈی کے مقابلے میں برتری
ٹیسلا کی موجودہ بیٹری سیلز تقریباً 300 واٹ آور فی کلو گرام انرجی ڈینسٹی رکھتی ہیں، جبکہ بی وائی ڈی (BYD) کی بلیڈ بیٹری صرف 150 واٹ آور فی کلو گرام پر محدود ہے۔ اس کے مقابلے میں چینی سائنس دانوں کی نئی لیتھیئم میٹل بیٹری دوگنی کارکردگی رکھتی ہے اور ٹیسلا کے مقابلے میں توانائی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت میں آگے نکل گئی ہے۔ یہ الیکٹرک وہیکل انڈسٹری کے لیے ایک نیا دور لا سکتی ہے۔
لیتھیئم میٹل بمقابلہ لیتھیئم آئن بیٹریاں
روایتی لیتھیئم آئن بیٹریاں اب تک دنیا بھر میں استعمال ہو رہی ہیں، مگر ان میں انرجی ڈینسٹی کی حد ہے۔ اس کے برعکس لیتھیئم میٹل بیٹریاں زیادہ انرجی ڈینسٹی فراہم کرتی ہیں اور اگلی جنریشن کی بیٹری ٹیکنالوجی سمجھی جاتی ہیں۔ چینی سائنس دانوں کی نئی لیتھیئم میٹل بیٹری اس حقیقت کو ثابت کرتی ہے کہ مستقبل کی ٹیکنالوجی روایتی بیٹریوں کو پیچھے چھوڑنے والی ہے۔
الیکٹرک وہیکلز میں انقلاب
دنیا بھر میں ای وی (Electric Vehicles) کی بڑھتی ہوئی مانگ کے ساتھ بیٹری ٹیکنالوجی میں جدت کی ضرورت ہے۔ ٹیسلا اور دیگر بڑی کمپنیاں بیٹری کی استعداد بڑھانے میں مسلسل تحقیق کر رہی ہیں۔ لیکن اب چینی سائنس دانوں کی نئی لیتھیئم میٹل بیٹری نے ایک ایسا حل پیش کیا ہے جو گاڑیوں کو زیادہ فاصلہ طے کرنے، کم وقت میں چارج ہونے اور کم وزن رکھنے کی صلاحیت دے سکتی ہے۔ اگر یہ ٹیکنالوجی تجارتی سطح پر کامیاب ہو گئی تو مستقبل کی گاڑیاں موجودہ ماڈلز کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ موثر ہوں گی۔
چیلنجز اور مشکلات
اگرچہ یہ بیٹری ایک زبردست کامیابی ہے، لیکن اس کے عملی استعمال میں کئی چیلنجز بھی موجود ہیں۔ لیتھیئم میٹل بیٹریاں عام طور پر زیادہ ردعمل والی ہوتی ہیں جس کے باعث ان میں آگ لگنے یا زیادہ گرم ہونے کے خدشات رہتے ہیں۔ اسی لیے سائنس دان اس وقت زیادہ محفوظ ڈیزائن پر بھی تحقیق کر رہے ہیں تاکہ چینی سائنس دانوں کی نئی لیتھیئم میٹل بیٹری کو بڑے پیمانے پر استعمال کے قابل بنایا جا سکے۔
مستقبل کی جھلک
یہ ایجاد نہ صرف الیکٹرک وہیکل انڈسٹری بلکہ اسمارٹ فونز، لیپ ٹاپس اور دیگر الیکٹرانک ڈیوائسز میں بھی ایک انقلاب لا سکتی ہے۔ زیادہ انرجی ڈینسٹی کا مطلب ہے کہ بیٹری زیادہ دیر چلے گی، ڈیوائس کم وزن ہوگی اور صارفین کو بہتر سہولت ملے گی۔
آخرکار یہ کہا جا سکتا ہے کہ چینی سائنس دانوں کی نئی لیتھیئم میٹل بیٹری مستقبل کی توانائی کے ذخیرے میں انقلاب برپا کرے گی۔ ٹیسلا اور بی وائی ڈی جیسی کمپنیوں کے لیے یہ ایجاد ایک چیلنج اور موقع دونوں ہے۔ اگر یہ بیٹری تجارتی پیمانے پر کامیاب ہو گئی تو آنے والے برسوں میں دنیا بھر کی بیٹری انڈسٹری کی تصویر بدل سکتی ہے۔
