ڈیڑھ سال بعد اردو یونیورسٹی سینیٹ کا اجلاس، وائس چانسلر کی تنخواہ اور 235 اساتذہ کے مستقبل کا فیصلہ متوقع
وفاقی اردو یونیورسٹی سینیٹ کا اجلاس اجلاس صدرِ مملکت اور یونیورسٹی کے چانسلر آصف علی زرداری کی منظوری سے بالآخر طلب کر لیا گیا ہے۔ یہ اجلاس ڈیڑھ سال بعد منعقد ہو رہا ہے اور موجودہ وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر ضابطہ خان شنواری کے دور میں یہ پہلا اجلاس ہوگا۔
51واں سینیٹ اجلاس 3 ستمبر کو گلشن اقبال سائنس کیمپس میں ڈپٹی چیئرمین سینیٹ ڈاکٹر جمیل احمد کی سربراہی میں منعقد ہوگا۔ اس اجلاس کو کئی حوالوں سے اہم قرار دیا جا رہا ہے کیونکہ اس کے ایجنڈے میں ایسے نکات شامل ہیں جو نہ صرف یونیورسٹی کے انتظامی معاملات بلکہ سینکڑوں اساتذہ کے مستقبل پر بھی براہِ راست اثر انداز ہوں گے۔
وائس چانسلر کی تنخواہ کا معاملہ
اجلاس کے اہم نکات میں موجودہ وائس چانسلر کی تنخواہ کے تعین کا معاملہ بھی شامل ہے۔ یاد رہے کہ وفاقی یونیورسٹی کے وائس چانسلر کی تنخواہ کا تعین چانسلر یعنی صدرِ مملکت کرتے ہیں، لیکن اس مرتبہ یہ معاملہ سینیٹ کے ایجنڈے میں شامل کیا گیا ہے۔ اس پر ارکان کے درمیان سوالات اٹھ رہے ہیں کہ ڈاکٹر ضابطہ خان شنواری پچھلے 18 ماہ سے کس مجاز اتھارٹی کی منظوری کے تحت تنخواہ وصول کر رہے ہیں۔ یہ بحث اجلاس میں ایک نمایاں نکتہ رہے گی۔
235 اساتذہ کے مستقبل کا فیصلہ
سینیٹ کا یہ اجلاس 235 اساتذہ کے لیے بھی فیصلہ کن ثابت ہوسکتا ہے۔ ان اساتذہ کو 2013 اور 2017 کے سلیکشن بورڈز کی سفارشات پر 2022 میں تقرر نامے جاری کیے گئے تھے۔ تاہم بعد ازاں ہائر ایجوکیشن کمیشن (HEC) نے ان سلیکشن بورڈز کے طریقہ کار اور دستاویزات پر اعتراضات اٹھا دیے۔
اس مقصد کے لیے ایک خصوصی کمیٹی تشکیل دی گئی جس کی سربراہی جامعہ کراچی کے ڈاکٹر رضا شاہ کر رہے ہیں جبکہ رکنیت میں دیوان یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر اورنگزیب اور بیرسٹر شاہدہ جمیل شامل ہیں۔ بتایا جا رہا ہے کہ کمیٹی کی رپورٹ اساتذہ کے حق میں سازگار نہیں ہے۔ اگر رپورٹ منفی قرار دی گئی تو تقریباً 100 کے قریب اساتذہ اپنی ملازمتوں سے محروم ہو جائیں گے جبکہ باقی کو اپنی پرانی اسامیوں پر واپس جانا پڑے گا۔
یہ صورتحال ان اساتذہ کے لیے بڑا دھچکا ہوگی جو اپنی سابقہ ملازمتیں چھوڑ کر اردو یونیورسٹی میں آئے تھے اور اب تک تین سال کی خدمات سمیت آزمائشی مدت بھی مکمل کر چکے ہیں۔
رجسٹرار اور غیر تدریسی عملے کی ترقیوں کا مسئلہ
اردو یونیورسٹی سینیٹ کا اجلاس کے ایجنڈے میں مستقل رجسٹرار، ٹریژرار اور ناظم امتحانات کے تقرر کی سفارشات بھی شامل ہیں، جو عدالت کے حکم پر پیش کی جا رہی ہیں۔ اس کے علاوہ غیر تدریسی عملے کی ٹائم پے اسکیل ترقیوں پر بھی بحث متوقع ہے۔
واضح رہے کہ سینیٹ کے پچھلے اجلاس میں فیصلہ کیا گیا تھا کہ یونیورسٹی کے تمام ملازمین کی سروس ہسٹری تیار کر کے سینیٹ میں پیش کی جائے گی، مگر ہدایت کو نظر انداز کرتے ہوئے صرف غیر تدریسی عملے کے ترقیوں کا معاملہ سنڈیکیٹ سے منظور کرا لیا گیا۔ اس پر بھی سینیٹ کے ارکان اپنے تحفظات کا اظہار کریں گے کیونکہ گریڈ 17 اور اس سے بالا میں ترقی کا استحقاق صرف سینیٹ کو حاصل ہے۔
جامعہ کے مستقبل پر اثرات
وفاقی اردو یونیورسٹی سینیٹ کا اجلاس انتظامی شفافیت، تدریسی عملے کے مستقبل اور ادارے کی پالیسی سازی کے حوالے سے نہایت اہمیت رکھتا ہے۔ ماہرین تعلیم کا کہنا ہے کہ اگر 235 اساتذہ کے خلاف فیصلہ آتا ہے تو یہ جامعہ کی تدریسی کارکردگی اور معیار دونوں پر منفی اثر ڈالے گا۔ دوسری طرف غیر تدریسی عملے کی ترقیوں کے معاملے نے بھی یونیورسٹی کے اندرونی انتظامی تنازعات کو مزید بڑھا دیا ہے۔
