پاکستان میں سونے کی قیمت میں بڑا اضافہ — فی تولہ 4 لاکھ 9 ہزار 878 روپے
پاکستان میں مہنگائی کی لہر کے دوران سونے کی قیمتوں میں ایک بار پھر نمایاں اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے، جس نے نہ صرف زیورات کی خرید و فروخت پر اثر ڈالا ہے بلکہ متوسط طبقے کے لیے شادی بیاہ اور دیگر تقریبات کی تیاری بھی مزید مشکل بنا دی ہے۔
آج ملک بھر کی صرافہ مارکیٹوں میں فی تولہ سونا 2 ہزار 100 روپے مہنگا ہو کر 4 لاکھ 9 ہزار 878 روپے پر پہنچ گیا، جو کہ ملکی تاریخ کی ایک بلند ترین سطحوں میں شمار کی جا رہی ہے۔ اسی طرح دس گرام سونے کی قیمت میں بھی 1 ہزار 651 روپے کا اضافہ ہوا، جس کے بعد یہ 3 لاکھ 22 ہزار 132 روپے پر پہنچ گئی۔
عالمی مارکیٹ کا اثر: فی اونس سونا 3,886 ڈالر پر پہنچ گیا
سونے کی قیمت میں یہ اضافہ صرف پاکستان تک محدود نہیں بلکہ عالمی منڈیوں میں بھی اسی رجحان کا تسلسل دیکھا جا رہا ہے۔ بین الاقوامی سطح پر فی اونس سونا 21 ڈالر کے اضافے کے بعد 3 ہزار 886 امریکی ڈالر تک پہنچ گیا، جو کہ عالمی سطح پر سونے کی مانگ اور سرمایہ کاری کے رجحانات کا آئینہ دار ہے۔
عالمی منڈی میں سونے کی قیمتوں میں اضافے کی متعدد وجوہات ہیں، جن میں جغرافیائی کشیدگیاں، مالیاتی غیریقینی صورتحال، ڈالر کی قیمت میں اتار چڑھاؤ، اور افراط زر جیسے عوامل شامل ہیں۔ جب بھی عالمی مارکیٹ میں مالیاتی عدم استحکام پیدا ہوتا ہے تو سرمایہ کار سونے کو ایک محفوظ سرمایہ کاری کے طور پر دیکھتے ہیں، جس کے نتیجے میں اس کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے۔
پاکستانی مارکیٹ میں چاندی کی قیمت بھی متاثر
صرف سونا ہی نہیں بلکہ چاندی کی قیمتوں میں بھی اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ فی تولہ چاندی کی قیمت میں 57 روپے کا اضافہ ہوا، جس کے بعد یہ 4 ہزار 896 روپے تک پہنچ گئی۔ چاندی کو عموماً کم قیمت زیورات، صنعتی مصنوعات، اور بعض ادویات سازی میں استعمال کیا جاتا ہے، لہٰذا اس کی قیمت میں اضافہ بھی عوام پر بالواسطہ اثر ڈال سکتا ہے۔
سونے کی قیمتوں میں اضافے کے ممکنہ اسباب
پاکستان میں سونے کی قیمت میں ہونے والے اضافے کے پیچھے متعدد داخلی و خارجی عوامل کارفرما ہیں:
عالمی منڈی کے اثرات: بین الاقوامی سطح پر سونے کی قیمتوں میں اضافہ پاکستان میں بھی قیمتوں کو اوپر لے جاتا ہے کیونکہ پاکستان زیادہ تر سونا درآمد کرتا ہے۔
روپے کی قدر میں کمی: ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں معمولی کمی بھی سونے کی قیمت پر براہ راست اثر ڈالتی ہے۔ جب روپے کی قدر گرتی ہے تو درآمدی اشیاء مہنگی ہو جاتی ہیں، جن میں سونا بھی شامل ہے۔
افراط زر: ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی اور افراط زر کے باعث سرمایہ کار اور عوام اپنی بچت کو محفوظ رکھنے کے لیے سونے کی خریداری کو ترجیح دیتے ہیں، جس سے اس کی طلب میں اضافہ اور نتیجتاً قیمت بڑھتی ہے۔
سیاسی و معاشی غیر یقینی صورتحال: سیاسی عدم استحکام اور معاشی پالیسیوں میں غیر یقینی کی فضا بھی سرمایہ کاروں کو روایتی سرمایہ کاری سے ہٹا کر سونا خریدنے کی طرف راغب کرتی ہے۔
شادیوں کا سیزن: پاکستان میں سونے کی خرید و فروخت میں خاص طور پر شادیوں کے موسم میں اضافہ ہوتا ہے، اور طلب بڑھنے کے ساتھ قیمتیں بھی اوپر چلی جاتی ہیں۔
صرافہ بازاروں میں خریدار کم، تشویش زیادہ
سونے کی قیمت میں اچانک اضافے کے باعث صرافہ بازاروں میں خریداروں کی تعداد کم ہو گئی ہے۔ زیادہ تر لوگ قیمتوں میں استحکام یا ممکنہ کمی کے منتظر ہیں۔ دکانداروں کے مطابق سونے کی قیمت میں مسلسل اضافہ نہ صرف خریداروں کے لیے پریشان کن ہے بلکہ کاروبار کے لیے بھی غیر یقینی صورتحال پیدا کر رہا ہے۔
کراچی، لاہور، اسلام آباد، پشاور اور دیگر بڑے شہروں میں صرافہ مارکیٹ کے تاجروں نے بتایا کہ موجودہ قیمتوں پر زیورات کی خریداری میں واضح کمی دیکھنے میں آئی ہے، اور صرف وہی لوگ خریداری کر رہے ہیں جو شادی بیاہ جیسی ناگزیر وجوہات کی بنا پر مجبور ہیں۔
عام آدمی پر اثرات
یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ سونے کی قیمت میں مسلسل اضافے نے عام آدمی کے لیے سونا خریدنا خواب بنا دیا ہے۔ خاص طور پر وہ خاندان جو اپنی بیٹیوں کی شادی کے لیے سونے کے زیورات خریدنے کا ارادہ رکھتے تھے، اب شدید پریشانی کا شکار ہیں۔
متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد اب مصنوعی زیورات یا کم قیراط کے زیورات کی طرف رجحان دکھا رہے ہیں۔ کچھ علاقوں میں پرانے زیورات کو نئے ڈیزائن میں ڈھال کر استعمال کرنے کا رجحان بھی بڑھ رہا ہے۔
معاشی ماہرین کی رائے
معاشی ماہرین کے مطابق اگر موجودہ مالیاتی پالیسیاں اور عالمی حالات اسی طرح جاری رہے تو سونے کی قیمت میں مزید اضافہ خارج از امکان نہیں۔ انہوں نے خبردار کیا ہے کہ اگر ڈالر کی قیمت میں تیزی سے اضافہ ہوا یا عالمی سطح پر کوئی بڑی کشیدگی پیدا ہوئی، تو سونا مزید مہنگا ہو سکتا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ مالیاتی مارکیٹ کو مستحکم رکھنے، روپے کی قدر کو برقرار رکھنے، اور درآمدی اشیاء کی قیمتوں کو قابو میں رکھنے کے لیے مؤثر اقدامات کرے، تاکہ سونے جیسے اہم اشیاء کی قیمت عام آدمی کی پہنچ سے باہر نہ جائے۔
کیا سونا سرمایہ کاری کا بہتر ذریعہ ہے؟
سونے کی بڑھتی ہوئی قیمتوں نے ایک بار پھر یہ بحث چھیڑ دی ہے کہ آیا سونا ایک محفوظ اور فائدہ مند سرمایہ کاری ہے یا نہیں۔ کئی سرمایہ کار سونے کو افراط زر کے خلاف ایک مضبوط تحفظ سمجھتے ہیں، خاص طور پر ان حالات میں جب کرنسی کی قدر میں کمی ہو رہی ہو۔
تاہم کچھ ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ سونا مختصر مدت میں فائدہ دینے کے بجائے طویل مدت میں ایک مستحکم اثاثہ کے طور پر فائدہ دیتا ہے، اور اس پر منافع صرف قیمت بڑھنے کی صورت میں ہی حاصل ہوتا ہے، جب کہ اس سے کوئی ماہانہ یا سالانہ آمدنی حاصل نہیں ہوتی جیسے کہ دیگر سرمایہ کاری کے ذرائع مثلاً پراپرٹی یا اسٹاکس سے حاصل ہوتی ہے۔
پاکستان میں سونے کی قیمت میں حالیہ اضافہ ایک سنگین معاشی اشارہ ہے، جو ملکی اور بین الاقوامی سطح پر موجود مالیاتی دباؤ اور غیر یقینی حالات کی عکاسی کرتا ہے۔ فی تولہ سونا 4 لاکھ 9 ہزار روپے سے تجاوز کر جانا ایک اہم معاشی موڑ ہے، جس کے اثرات عام صارف سے لے کر کاروباری طبقے تک پہنچ رہے ہیں۔
حکومت، مالیاتی ادارے، اور ماہرین معیشت کو اس رجحان پر گہری نظر رکھنے کی ضرورت ہے تاکہ عوام کے لیے سونا دوبارہ ایک قابل رسائی اثاثہ بن سکے، اور ملک میں معاشی توازن برقرار رکھا جا سکے۔
