نئی پالیسی کے تحت پابندی ختم، گوادر فری زون سے برآمد کی اجازت
گدھوں کی کھال کی برآمد پر نیا موڑ
پاکستان کی معیشت میں برآمدات کا اہم کردار ہے، اور اب حکومت نے ایک اہم فیصلے کے تحت گدھے کی کھال برآمد پر عائد پابندی کو ختم کردیا ہے۔ یہ فیصلہ وزارتِ تجارت کے ایکسپورٹ پالیسی آرڈر 2022ء میں ترمیم کے بعد سامنے آیا ہے، جس کے تحت ای سی سی کے 2015ء کے فیصلے کو منسوخ کردیا گیا۔ اس نئی پالیسی کے تحت گدھے کی کھال برآمد صرف گوادر فری زون سے کی جاسکے گی، اور یہ اجازت صرف رجسٹرڈ اور منظور شدہ سلاٹر ہاؤسز کو دی جائے گی۔ یہ فیصلہ نہ صرف معاشی ترقی کے مواقع پیدا کرے گا بلکہ عالمی منڈی میں پاکستانی مصنوعات کی مانگ کو بھی بڑھاوا دے گا۔
ایکسپورٹ پالیسی آرڈر 2022ء میں ترمیم کی تفصیلات
وزارتِ تجارت کی جانب سے جاری کردہ نوٹی فکیشن کے مطابق، ایکسپورٹ پالیسی آرڈر 2022ء میں اہم ترامیم کی گئی ہیں۔ اس ترمیم کا بنیادی مقصد گدھے کی کھال برآمد کے عمل کو منظم کرنا اور اسے عالمی معیار کے مطابق بنانا ہے۔ نئی پالیسی کے تحت:
- گدھے کی کھال برآمد صرف گوادر فری زون سے کی جاسکے گی۔
- صرف رجسٹرڈ اور منظور شدہ سلاٹر ہاؤسز کو برآمد کی اجازت دی جائے گی۔
- ای سی سی کے 2015ء کے فیصلے کو منسوخ کردیا گیا، جس نے اس برآمد پر پابندی عائد کی تھی۔
یہ فیصلہ معاشی سرگرمیوں کو فروغ دینے اور غیر روایتی برآمدات کے ذریعے زرمبادلہ کمانے کی حکومتی کوششوں کا حصہ ہے۔ گدھے کی کھال برآمد سے نہ صرف مقامی صنعت کو فروغ ملے گا بلکہ عالمی منڈی میں پاکستانی مصنوعات کی مانگ بھی بڑھے گی۔
گوادر فری زون کی اہمیت
گوادر فری زون پاکستان کی معاشی ترقی کے لیے ایک اہم مرکز کے طور پر ابھر رہا ہے۔ اس فری زون کو گدھے کی کھال برآمد کے لیے خصوصی طور پر منتخب کیا گیا ہے تاکہ برآمدی عمل کو زیادہ شفاف اور منظم بنایا جاسکے۔ گوادر فری زون کے انتخاب کے پیچھے کئی وجوہات ہیں:
- جغرافیائی محل وقوع: گوادر بندرگاہ عالمی تجارت کے لیے ایک اہم مرکز ہے، جو ایشیا، یورپ، اور افریقہ کے درمیان رابطے کا کام کرتی ہے۔
- سہولیات: گوادر فری زون میں جدید سہولیات موجود ہیں جو برآمدات کے عمل کو آسان بناتی ہیں۔
- اقتصادی فوائد: فری زون سے برآمدات پر ٹیکس چھوٹ اور دیگر مراعات حاصل ہوتی ہیں، جو برآمد کنندگان کے لیے پرکشش ہیں۔
اس پالیسی سے گوادر فری زون کے ذریعے گدھے کی کھال برآمد کو فروغ ملے گا، جو مقامی معیشت کے لیے ایک مثبت قدم ہے۔
رجسٹرڈ سلاٹر ہاؤسز کا کردار
حکومت نے گدھے کی کھال برآمد کے عمل کو منظم کرنے کے لیے صرف رجسٹرڈ اور منظور شدہ سلاٹر ہاؤسز کو اجازت دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس کا مقصد غیر قانونی سرگرمیوں کو روکنا اور کھالوں کے معیار کو یقینی بنانا ہے۔ رجسٹرڈ سلاٹر ہاؤسز کے ذریعے:
- کھالوں کی پروسیسنگ عالمی معیار کے مطابق کی جائے گی۔
- جانوروں کے ساتھ غیر انسانی سلوک کو روکنے کے لیے سخت ضابطے نافذ کیے جائیں گے۔
- برآمدات سے حاصل ہونے والے زرمبادلہ کو شفاف طریقے سے ریکارڈ کیا جائے گا۔
یہ اقدام نہ صرف گدھے کی کھال برآمد کے عمل کو بہتر بنائے گا بلکہ عالمی منڈی میں پاکستانی مصنوعات کی ساکھ کو بھی بڑھائے گا۔
عالمی منڈی میں گدھوں کی کھال کی مانگ
گدھوں کی کھال کی عالمی منڈی میں خاصی مانگ ہے، خصوصاً مشرقی ایشیائی ممالک جیسے کہ چین میں۔ اس کی وجہ گدھوں کی کھال سے بننے والی مصنوعات ہیں، جو ادویات، کاسمیٹکس، اور دیگر صنعتی استعمال کے لیے استعمال ہوتی ہیں۔ چین میں گدھوں کی کھال سے بننے والی ایک روایتی دوا "ای جیاو” کی تیاری کے لیے بڑے پیمانے پر کھالوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس نئی پالیسی سے پاکستان اس مانگ کو پورا کرنے کی پوزیشن میں آجائے گا، جو زرمبادلہ کمانے کا ایک بڑا ذریعہ بن سکتا ہے۔
حکومت کا یہ فیصلہ پاکستانی برآمد کنندگان کے لیے نئے مواقع پیدا کرے گا، اور گدھوں کی کھال کی برآمد سے حاصل ہونے والی آمدنی مقامی معیشت کو مضبوط بنانے میں مدد دے گی۔
معاشی فوائد اور چیلنجز
گدھے کی کھال برآمد کی اجازت سے پاکستان کو کئی معاشی فوائد حاصل ہوں گے:
- زرمبادلہ کی آمدنی: غیر روایتی برآمدات سے زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہوگا۔
- روزگار کے مواقع: سلاٹر ہاؤسز اور متعلقہ صنعتوں میں نئی ملازمتیں پیدا ہوں گی۔
- صنعتی ترقی: کھالوں کی پروسیسنگ سے متعلق صنعتوں کو فروغ ملے گا۔
تاہم، اس فیصلے کے ساتھ کچھ چیلنجز بھی ہیں:
- معیار کا کنٹرول: عالمی منڈی کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے کھالوں کا معیار برقرار رکھنا ضروری ہے۔
- ماحولیاتی اثرات: کھالوں کی پروسیسنگ سے ماحولیاتی آلودگی کا خطرہ ہو سکتا ہے۔
- جانوروں کے حقوق: گدھوں کے ساتھ غیر انسانی سلوک کے خدشات کو دور کرنے کے لیے سخت ضابطوں کی ضرورت ہے۔
حکومت کو ان چیلنجز سے نمٹنے کے لیے جامع حکمت عملی بنانے کی ضرورت ہے تاکہ گدھوں کی کھال کی برآمد سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھایا جاسکے۔
نئی پالیسی کا پس منظر
ای سی سی نے 2015ء میں گدھے کی کھال برآمد پر پابندی عائد کی تھی، جس کی بنیادی وجہ غیر قانونی سرگرمیوں اور جانوروں کے ساتھ غیر انسانی سلوک کے خدشات تھے۔ تاہم، عالمی منڈی میں بڑھتی ہوئی مانگ اور معاشی دباؤ کے پیش نظر حکومت نے اس پابندی کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا۔ ایکسپورٹ پالیسی آرڈر 2022ء میں ترمیم اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ حکومت غیر روایتی برآمدات کو فروغ دینے کے لیے سنجیدہ ہے۔
مستقبل کے امکانات
گدھے کی کھال برآمد کی اجازت سے پاکستان عالمی منڈی میں اپنی پوزیشن مضبوط کرسکتا ہے۔ گوادر فری زون کے ذریعے برآمدات سے نہ صرف معاشی ترقی ہوگی بلکہ علاقائی ترقی کے منصوبوں کو بھی تقویت ملے گی۔ اس کے علاوہ، رجسٹرڈ سلاٹر ہاؤسز کے ذریعے برآمدات کے عمل کو منظم کرنے سے شفافیت بڑھے گی اور غیر قانونی سرگرمیوں پر قابو پایا جاسکے گا۔
چین کا پشاور میں گدھوں کا منصوبہ، ہر ماہ 10 ہزار برآمد کرنے کی تیاری
حکومت کا گدھے کی کھال برآمد پر پابندی ختم کرنے کا فیصلہ معاشی ترقی کی جانب ایک اہم قدم ہے۔ گوادر فری زون کے ذریعے منظم برآمدات اور رجسٹرڈ سلاٹر ہاؤسز کے استعمال سے نہ صرف عالمی منڈی میں پاکستانی مصنوعات کی مانگ بڑھے گی بلکہ زرمبادلہ کے ذخائر میں بھی اضافہ ہوگا۔ تاہم، اس پالیسی کے کامیاب نفاذ کے لیے معیار کے کنٹرول، ماحولیاتی تحفظ، اور جانوروں کے حقوق کے تحفظ کو یقینی بنانا ضروری ہے۔