عمران خان کی ضمانت پر سپریم کورٹ کی سماعت ملتوی، چیف جسٹس کے دوٹوک ریمارکس
سپریم کورٹ میں عمران خان کی ضمانت کی درخواستوں پر سماعت ملتوی — اسپیشل پراسیکیوٹر کی غیر حاضری پر عدالت برہم
سپریم کورٹ آف پاکستان میں آج ایک اہم مقدمے کی سماعت ہونا تھی، جس میں چیف جسٹس پاکستان یحییٰ آفریدی کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے سابق وزیراعظم اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی عمران خان کی جانب سے دائر کی گئی ضمانت کی درخواستوں پر کارروائی کرنی تھی۔
تاہم، یہ حساس اور اہم سماعت اس وقت ملتوی کر دی گئی جب اسپیشل پراسیکیوٹر ذوالفقار نقوی عدالت میں پیش نہ ہوئے۔ ان کے معاون وکیل نے عدالت کو بتایا کہ اسپیشل پراسیکیوٹر کو فوڈ پوائزننگ ہو گئی ہے اور وہ اسپتال میں زیر علاج ہیں، جس پر عدالت نے معاملے کو کل تک ملتوی کرنے کا حکم دیا۔
سماعت کا پس منظر
یاد رہے کہ عمران خان مختلف مقدمات میں ضمانت کی درخواستیں دائر کر چکے ہیں، جن میں کچھ کیسز 9 مئی کے پرتشدد مظاہروں سے جڑے ہوئے ہیں اور کچھ دیگر نیب یا دیگر انسداد دہشت گردی قوانین کے تحت درج کیے گئے ہیں۔
ان درخواستوں پر لاہور ہائیکورٹ کی جانب سے پہلے ضمانت مسترد کی جا چکی ہے، جس کے بعد یہ اپیلیں سپریم کورٹ میں دائر کی گئی ہیں۔
عدالت میں کیا ہوا؟
چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کی سربراہی میں تین رکنی بینچ جب مقدمے کی سماعت کے لیے پہنچا تو اسپیشل پراسیکیوٹر ذوالفقار نقوی کی عدم موجودگی نے کارروائی کو متاثر کیا۔ ان کے معاون وکیل نے بتایا:
"جنابِ صدر، اسپیشل پراسیکیوٹر ذوالفقار نقوی فوڈ پوائزنگ کا شکار ہو گئے ہیں، اس وقت اسپتال میں داخل ہیں، براہ کرم کیس کی سماعت اگلے ہفتے تک ملتوی کر دیں۔”
اس پر چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے جواب دیا:
"ہم کل سماعت رکھ رہے ہیں، کل دیکھ لیتے ہیں۔”
فیملی ممبرز کو بولنے کی اجازت نہ دی گئی
عمران خان کے وکیل سلمان صفدر نے عدالت سے استدعا کی کہ عمران خان کی بہنوں کو روسٹرم پر آ کر کچھ بات کرنے کی اجازت دی جائے، تاہم چیف جسٹس نے یہ استدعا مسترد کرتے ہوئے کہا:
"عدالت میں صرف وکیل بات کر سکتا ہے، فیملی ممبر کو بولنے کی اجازت نہیں دے سکتے۔”
یہ اقدام عدالت کی جانب سے کارروائی کو قانونی دائرہ کار میں رکھنے کا عکاس تھا اور ایک مضبوط پیغام بھی دیا گیا کہ عدالت میں صرف قانونی نکات پر بات ہو گی، نہ کہ جذباتی اپیلوں پر۔
وکیلِ صفائی کے تحفظات
عمران خان کے وکیل سلمان صفدر نے عدالت کو بتایا کہ کیس میں پہلے ہی بہت زیادہ تاخیر ہو چکی ہے۔ انہوں نے کہا:
"لاہور ہائیکورٹ نے عمران خان کی ضمانت گزشتہ سال نومبر میں خارج کی تھی۔ تب سے یہ معاملہ التوا کا شکار رہا۔ صرف ہائیکورٹ میں ہی اس کیس کی 16 سماعتیں ہوئیں، استغاثہ نے بار بار تاخیر کی درخواست دی، یہاں تک کہ 8 پراسیکیوٹرز تبدیل ہوئے۔”
انہوں نے مزید کہا:
"ہم یہ تمام تاخیر برداشت کرتے آئے ہیں، لیکن اب اکتاہٹ ہو گئی ہے۔ انصاف کے لیے بروقت سماعت اور فیصلے کی ضرورت ہے۔”
چیف جسٹس کا عدالتی مؤقف
چیف جسٹس پاکستان یحییٰ آفریدی نے اس پر اطمینان دلایا:
"بے فکر رہیں، ہم اس کیس کو مزید طویل التوا میں نہیں ڈالیں گے۔ لیکن قانونی طریقہ کار کے مطابق استغاثہ کو پہلے سننا ضروری ہے۔”
انہوں نے واضح کیا کہ عدالت اس بات کا بھی جائزہ لے گی کہ ہائی کورٹ کا فیصلہ برقرار کیسے رکھا جا سکتا ہے؟ اور اگر نہیں تو کس بنیاد پر اس کو کالعدم قرار دیا جائے گا۔
ایک سوال: استغاثہ غیر حاضر کیوں؟
اس سماعت میں ایک اہم نکتہ یہ بھی اٹھا کہ کیا واقعی اسپیشل پراسیکیوٹر کی غیر موجودگی ایک حقیقی طبی مجبوری ہے یا یہ کسی تاخیری حربے کے طور پر استعمال ہو رہی ہے؟ قانونی ماہرین کے مطابق، اس سوال کا جواب سپریم کورٹ کی آئندہ سماعت میں واضح ہو گا۔
اگر ثابت ہوا کہ یہ ایک غیر سنجیدہ طرزِ عمل تھا تو عدالت استغاثہ کو جوابدہ ٹھہرا سکتی ہے۔
سیاسی منظرنامے پر اثرات
یہ مقدمہ صرف ایک قانونی مسئلہ نہیں بلکہ سیاسی لحاظ سے بھی انتہائی حساس ہے۔ عمران خان کے خلاف متعدد مقدمات زیر التوا ہیں، اور ان کی جماعت نے بارہا عدالتی کارروائی میں تاخیر کو سیاسی انتقام کا شاخسانہ قرار دیا ہے۔
ان کے حامیوں کا مؤقف ہے کہ عدالتوں کے ذریعے سیاسی دباؤ ڈالا جا رہا ہے تاکہ عمران خان کو آئندہ عام انتخابات سے باہر رکھا جا سکے۔
جبکہ مخالفین کا کہنا ہے کہ قانون سب کے لیے برابر ہونا چاہیے، اور جو شخص قانون کی خلاف ورزی کرے اسے عدالتوں میں جواب دینا چاہیے، خواہ وہ کوئی بھی ہو۔
سپریم کورٹ کا چیلنج
اب سپریم کورٹ کے سامنے دو اہم چیلنجز ہیں:
کیس کو بروقت اور شفاف انداز میں آگے بڑھانا۔
یہ تاثر ختم کرنا کہ عدالتیں سیاسی دباؤ یا اثر و رسوخ کے تحت فیصلے کر رہی ہیں۔
چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے جس انداز میں کارروائی کی قیادت کی، اس سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ عدالت معیاری انصاف فراہم کرنے کے لیے سنجیدہ ہے، اور چاہتی ہے کہ ہر فریق کو مکمل سنا جائے۔
آئندہ سماعت: اہم مرحلہ
اب عدالت نے کیس کی اگلی سماعت کل (21 اگست 2025) مقرر کی ہے، جو اس اہم کیس کے لیے فیصلہ کن ثابت ہو سکتی ہے۔ اگر اسپیشل پراسیکیوٹر پیش نہ ہوئے تو عدالت ممکنہ طور پر یک طرفہ کارروائی کا بھی فیصلہ کر سکتی ہے، جیسا کہ ماضی میں ایسے مقدمات میں ہوتا آیا ہے۔
نتیجہ: انصاف کی راہ میں رکاوٹ یا احتیاط؟
یہ کہنا قبل از وقت ہو گا کہ استغاثہ کی غیر حاضری انصاف کی راہ میں رکاوٹ ہے یا ایک حقیقی مجبوری۔ لیکن یہ بات طے ہے کہ عوام، میڈیا، اور سیاسی حلقے اس کیس کی پیش رفت پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں۔
عدالت کی آئندہ کارروائی اور فیصلے نہ صرف عمران خان کی سیاسی قسمت کا تعین کریں گے بلکہ پاکستانی عدالتی نظام کے تاثر کو بھی متاثر کریں گے۔
کلیدی نکات:
سپریم کورٹ میں عمران خان کی ضمانت کی درخواستوں پر سماعت اسپیشل پراسیکیوٹر کی غیر حاضری کے باعث ملتوی۔
- عدالت نے کیس کی سماعت کل (21 اگست) تک کے لیے مؤخر کر دی۔
- عمران خان کی فیملی کو روسٹرم پر بات کرنے کی اجازت مسترد۔
- وکیل صفائی نے مقدمے میں تاخیر اور استغاثہ کے حربوں پر برہمی کا اظہار کیا۔
- چیف جسٹس نے یقین دہانی کروائی کہ مزید طویل التوا نہیں ہو گا۔
READ MORE FAQs.
عمران خان کی ضمانت کی سماعت کیوں ملتوی ہوئی؟
اسپیشل پراسیکیوٹر کی غیر حاضری کی وجہ سے سماعت ملتوی ہوئی۔
چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے کیا ریمارکس دیے؟
چیف جسٹس نے کہا کہ استغاثہ کو پہلے سنا جائے گا اور غیر ضروری تاخیر نہیں کی جائے گی۔
عمران خان کے وکیل نے کیا مؤقف اپنایا؟
وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ عدالت کو ہمیں بھی دلائل دینے کا موقع دینا چاہیے۔
