اسلام آباد میں ڈینگی کیسز میں تیزی، 24 گھنٹوں میں 32 نئے مریض رپورٹ
اسلام آباد، جو پاکستان کا دارالحکومت ہونے کے ناطے ہر لحاظ سے ایک ماڈل سٹی تصور کیا جاتا ہے، آجکل ایک سنجیدہ صحت کے بحران — ڈینگی بخار — کا سامنا کر رہا ہے۔ گزشتہ 24 گھنٹوں میں ڈینگی کے 32 نئے کیسز رپورٹ ہوئے ہیں، جن میں سے 24 دیہی علاقوں اور 8 شہری علاقوں سے سامنے آئے ہیں۔ اس صورتحال نے نہ صرف ضلعی صحت انتظامیہ کو متحرک کر دیا ہے بلکہ عوامی سطح پر بھی تشویش کی لہر دوڑا دی ہے۔
ڈینگی کا پھیلاؤ: اعداد و شمار کی زبان میں
اسلام آباد کے ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر (ڈی ایچ او) ڈاکٹر راشدہ بتول کے مطابق، اس وقت 22 مریض اسپتالوں میں زیرِ علاج ہیں، جبکہ باقی کیسز کو گھروں میں آئسولیشن اور طبی نگہداشت میں رکھا گیا ہے۔ ڈینگی کی موجودہ لہر خاص طور پر دیہی علاقوں میں تیزی سے پھیل رہی ہے، جو کہ ماضی کے رجحانات سے قدرے مختلف ہے جہاں شہری علاقے زیادہ متاثر ہوتے تھے۔
دیہی علاقوں میں پھیلاؤ کی ایک بڑی وجہ ناقص نکاسی آب، غیر منظم آبادی، اور ناکافی صفائی کے انتظامات ہیں۔ یہ عوامل ڈینگی مچھر کی افزائش کے لیے سازگار ماحول فراہم کرتے ہیں، خاص طور پر مون سون سیزن کے دوران۔
انسدادِ ڈینگی مہمات کی تفصیل
ڈاکٹر راشدہ بتول نے بتایا کہ ڈسٹرکٹ ہیلتھ سروسز نے گزشتہ دنوں میں 440 مقامات کا معائنہ کیا اور ان میں سے 12 مقامات کو ڈینگی ہاٹ اسپاٹ قرار دیا گیا۔ ان تمام مقامات کی رپورٹ انتظامیہ کو فراہم کر دی گئی ہے تاکہ فوری اقدامات کیے جا سکیں۔
یہ ہاٹ اسپاٹس وہ علاقے ہوتے ہیں جہاں ڈینگی وائرس کی افزائش، مریضوں کی تعداد، یا مچھروں کی موجودگی میں مسلسل اضافہ نوٹ کیا جاتا ہے۔ ان مقامات کی شناخت اور ان پر توجہ دینا انسدادِ ڈینگی کی حکمت عملی میں نہایت اہم کردار ادا کرتا ہے۔
انسدادِ ڈینگی سرگرمیوں کی وسعت
ڈاکٹر راشدہ بتول کے مطابق، اسلام آباد میں 40,896 انسدادِ ڈینگی سرگرمیاں کی جا چکی ہیں، جن میں آگاہی مہمات، اسپرے، فوگنگ، لاروے کی تلفی، اور ہاؤس ٹو ہاؤس وزٹ شامل ہیں۔ ان اقدامات کا مقصد نہ صرف موجودہ کیسز کو کنٹرول کرنا ہے بلکہ ڈینگی کی ممکنہ نئی لہروں کو روکنا بھی ہے۔
مزید تفصیل کے مطابق:
2,459 گھروں میں اسپرے کیا گیا جہاں ڈینگی کے مریض موجود تھے یا ان کے قریبی علاقوں میں وائرس کی موجودگی کا خدشہ تھا۔
1,800 مقامات پر فوگنگ کی گئی تاکہ مچھر مار دوا کے ذریعے بالغ مچھروں کو ختم کیا جا سکے۔
حکمت عملی کی اہمیت: بروقت ردِ عمل
ڈینگی جیسا وائرس بروقت ردِ عمل کا متقاضی ہوتا ہے، اور اسلام آباد کی ضلعی انتظامیہ اس وقت ایک جامع حکمت عملی کے تحت کام کر رہی ہے۔ ڈاکٹر راشدہ بتول کی سربراہی میں ایک فعال ٹیم مانیٹرنگ، معائنہ، اسپرے، اور عوامی آگاہی پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے۔
تاہم، ان سرگرمیوں کی کامیابی صرف اس وقت ممکن ہے جب عوام بھی اپنا کردار بخوبی ادا کریں۔ پانی کے کھلے ذخائر کا خاتمہ، صاف ستھرا ماحول، اور احتیاطی تدابیر پر عمل نہایت ضروری ہے۔
خطرے کی گھنٹی: دیہی علاقوں کی صورتحال
دیہی علاقوں سے 24 گھنٹوں میں 24 کیسز رپورٹ ہونا ایک خطرناک اشارہ ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یا تو وہاں مچھر مار مہمات کی کوریج کم ہے، یا عوامی شعور کی کمی کے باعث ڈینگی کا پھیلاؤ روکنے میں مشکلات پیش آ رہی ہیں۔
اسلام آباد کی حدود میں واقع دیہی علاقے، جیسے ترنول، بھارہ کہو، ترامڑی، چک شہزاد، اور کورنگ ٹاؤن، ایسے علاقے ہیں جہاں ڈینگی کا خطرہ زیادہ ہے۔ ان علاقوں میں:
- کچی آبادیاں
- گندا پانی جمع ہونے کے مقامات
- ناکافی میونسپل سہولیات
- کچرے کے ڈھیر
یہ تمام عوامل مچھروں کی افزائش کے لیے موزوں ماحول فراہم کرتے ہیں۔
اسپتالوں پر دباؤ
اسلام آباد کے مختلف سرکاری اور نجی اسپتالوں میں ڈینگی کے مریضوں کے لیے الگ وارڈز قائم کیے جا چکے ہیں۔ موجودہ صورتحال میں 22 مریض اسپتالوں میں زیر علاج ہیں، لیکن اگر کیسز کی یہی رفتار برقرار رہی، تو صحت کے اداروں پر دباؤ مزید بڑھ سکتا ہے۔
ڈینگی کے مریضوں کو خصوصی نگہداشت، مسلسل مانیٹرنگ، اور بعض اوقات خون کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس لیے حکومت اور اسپتالوں کو ابھی سے تیار رہنے کی ضرورت ہے تاکہ کسی ہنگامی صورتحال میں عوام کو بہتر سہولیات فراہم کی جا سکیں۔
عوامی شعور کی کمی: سب سے بڑی رکاوٹ
اگرچہ حکومت اور ضلعی انتظامیہ کی جانب سے انسدادِ ڈینگی مہمات کی جا رہی ہیں، مگر ان کا اصل اثر عوامی تعاون کے بغیر ممکن نہیں۔ اکثر دیہی اور حتیٰ کہ شہری علاقوں میں بھی لوگ احتیاطی تدابیر کو سنجیدگی سے نہیں لیتے۔ کھلے پانی کے برتن، پرانے ٹائروں میں پانی جمع ہونا، اور گملوں میں کھڑا پانی — یہ سب مچھر کی افزائش کے بڑے اسباب ہیں۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ:
- ہر گھر انسدادِ ڈینگی اصولوں پر عمل کرے
- تعلیمی ادارے طلبہ کو ڈینگی کے خطرات اور احتیاطی تدابیر سے آگاہ کریں
- میڈیا مسلسل عوامی شعور بیداری مہمات چلائے
- علمائے کرام مساجد میں احتیاطی تدابیر پر خطبے دیں
مستقبل کی حکمت عملی
ڈینگی ایک موسمی وبا ہے، مگر اس کے خلاف لڑائی پورا سال جاری رہنی چاہیے۔ صرف مون سون یا ستمبر-اکتوبر میں فوگنگ یا اسپرے کافی نہیں۔ ماہرین صحت کے مطابق، اگر پورا سال مچھروں کی افزائش روکنے پر کام کیا جائے تو ڈینگی کے خطرات کو 70-80 فیصد تک کم کیا جا سکتا ہے۔
اسلام آباد کے لیے تجویز کردہ اقدامات:
ڈینگی سرویلنس یونٹ کو ہر یونین کونسل تک وسعت دی جائے
ڈیٹا بیس بنایا جائے تاکہ مریضوں اور ہاٹ اسپاٹس کی شناخت بروقت ہو
ماہانہ انسدادِ ڈینگی جائزہ اجلاس منعقد کیے جائیں
والنٹئر نیٹ ورک قائم کیا جائے جو گلی محلوں میں معائنہ اور آگاہی کا کام کریں
اسکول نصاب میں ڈینگی سے متعلق معلومات شامل کی جائیں
صرف حکومتی اقدامات کافی نہیں
اسلام آباد میں ڈینگی کے بڑھتے کیسز ایک وارننگ ہیں۔ اگر فوری اور مربوط اقدامات نہ کیے گئے تو یہ وائرس ایک بار پھر وبائی صورت اختیار کر سکتا ہے۔ اگرچہ ضلعی انتظامیہ، بالخصوص ڈاکٹر راشدہ بتول، فعال کردار ادا کر رہی ہیں، مگر اصل کامیابی عوامی تعاون، شعور اور استمرار سے ہی ممکن ہے۔
ڈینگی کے خلاف جنگ صرف اسپرے یا فوگنگ سے نہیں جیتی جا سکتی — یہ ایک اجتماعی کوشش کا تقاضا کرتی ہے۔ اور وقت کی سب سے بڑی پکار یہی ہے:"خود بھی بچیں، دوسروں کو بھی بچائیں!"

