اسلام آباد میں گدھے کا گوشت چین برآمد کرنے کی کوشش بے نقاب 2 چینی شہری گرفتار، پولیس رپورٹ جاری
اسلام آباد پولیس نے وفاقی دارالحکومت میں گدھے کے گوشت سے متعلق ایک انتہائی اہم پیش رفت کی ہے، جس کے تحت ابتدائی تفتیشی رپورٹ جاری کر دی گئی ہے۔ اس رپورٹ نے نہ صرف عوام میں پھیلے خوف اور تشویش کو جزوی طور پر ختم کیا بلکہ اس معاملے کے اصل حقائق کو بھی منظر عام پر لایا۔
رپورٹ کے مطابق، اسلام آباد کے ایک گودام سے برآمد ہونے والا گدھے کا گوشت کسی مقامی ہوٹل، ریسٹورنٹ یا مارکیٹ میں فروخت نہیں کیا گیا، بلکہ اس کو چین برآمد کرنے کی منصوبہ بندی کی جا رہی تھی۔ پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ منصوبہ کافی منظم انداز میں ترتیب دیا گیا تھا، جس میں نہ صرف گودام کرائے پر لیا گیا بلکہ گدھوں کی سپلائی اور گوشت کی پیکنگ کا بھی مکمل انتظام کیا گیا تھا۔
تفصیلات کے مطابق، فیصل آباد سے مجموعی طور پر 60 گدھوں کو اسلام آباد منتقل کیا گیا۔ ان میں سے صرف 15 گدھے ذبح کیے گئے تھے جبکہ باقی ابھی زندہ تھے۔ پولیس نے بتایا کہ ان ذبح شدہ گدھوں کی باقیات، ہڈیاں اور کھالیں اسلام آباد کے علاقے سی-16 میں ایک مخصوص مقام پر ڈمپ کی گئی تھیں۔ گودام میں موجود گوشت اور کھالوں کو بعد ازاں گوادر پورٹ کے ذریعے چین بھجوانے کا منصوبہ تھا۔ تاہم، قانون نافذ کرنے والے اداروں نے بروقت کارروائی کرتے ہوئے اس غیر قانونی کام کو بے نقاب کر دیا۔
پولیس نے گودام کے چینی مالک، جیانگ لیانگ، سے تفتیش کی۔ جیانگ نے اپنا بیان ریکارڈ کرواتے ہوئے بتایا کہ وہ اس گوشت کو پاکستان میں فروخت کرنے کا ارادہ نہیں رکھتا تھا بلکہ مکمل طور پر ایکسپورٹ کے لیے تیاری کی جا رہی تھی۔ پولیس کا کہنا ہے کہ گودام میں موجود سہولیات بھی ایکسپورٹ کے معیار کے مطابق تیار کی گئی تھیں، جیسے کہ ریفریجریشن، پیکنگ یونٹ، اور مخصوص پیکنگ مواد جو کہ بین الاقوامی ایکسپورٹ اسٹینڈرڈز کے مطابق تھا۔
اس کیس کی مزید تفتیش کے دوران پولیس نے دو اہم کرداروں کو بھی گرفتار کیا۔ ان میں پہلا گودام کا مالک فیاض تھا، جس نے یہ پراپرٹی کرایہ پر دی تھی، اور دوسرا پراپرٹی ڈیلر عامر تھا، جس نے یہ سودا کروایا۔ پولیس کے مطابق، ان دونوں افراد نے قانونی طور پر مطلوبہ کرایہ نامہ اور دیگر دستاویزات پولیس کو فراہم نہیں کیں، جس پر انہیں ٹیکسلا سے گرفتار کر کے عدالت میں پیش کیا گیا۔ بعد ازاں عدالت نے ان دونوں کو جوڈیشل حراست میں دے دیا۔ تاہم یہ جرم قابل ضمانت ہے جس کے تحت ملزمان ضمانت پر رہا بھی ہو سکتے ہیں۔
یہ واقعہ سامنے آنے کے بعد سوشل میڈیا اور عوامی حلقوں میں شدید غم و غصہ دیکھا گیا۔ شہریوں کا کہنا ہے کہ اگرچہ پولیس کی کارروائی بروقت تھی، مگر سوال یہ ہے کہ اس طرح کا ایک نیٹ ورک کس طرح فعال ہو گیا اور اس کا پتا پہلے کیوں نہ چل سکا؟ اس پر عوامی سطح پر بحث جاری ہے۔
اسلام آباد فوڈ اتھارٹی اور دیگر متعلقہ اداروں پر بھی دباؤ بڑھ رہا ہے کہ وہ خوراک کے معیار کو یقینی بنانے کے لیے سخت اقدامات کریں۔ عوامی حلقے مطالبہ کر رہے ہیں کہ اس قسم کے واقعات کو سنجیدگی سے لیا جائے اور ایسے عناصر کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے جو انسانی صحت کے ساتھ کھیلنے کی کوشش کرتے ہیں۔
متعدد ماہرین صحت اور حلال فوڈ انسپکٹرز کا کہنا ہے کہ گدھے کا گوشت انسانی صحت کے لیے نقصان دہ ہو سکتا ہے، خاص طور پر اگر اسے غیر معیاری یا غیر محفوظ حالات میں کاٹا اور محفوظ کیا جائے۔ چونکہ پاکستان میں گدھے کا گوشت کھانے یا فروخت کرنے کی اجازت نہیں، اس لیے اس کی موجودگی خود ایک سنگین جرم ہے۔
اس واقعہ نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو چوکنا کر دیا ہے۔ مزید تحقیقات جاری ہیں تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ آیا اس کے پیچھے کوئی بڑا نیٹ ورک سرگرم ہے یا یہ محض چند افراد کی ذاتی کاوش تھی۔ پولیس کا کہنا ہے کہ گودام میں موجود تمام شواہد کو فورنزک لیبارٹری بھیجا جا چکا ہے تاکہ گوشت کی نوعیت، پیکنگ میں استعمال ہونے والے مواد اور دیگر تفصیلات کا مکمل تجزیہ کیا جا سکے۔
مزید برآں، وزارت داخلہ کی سطح پر بھی اس معاملے پر نوٹس لیا گیا ہے اور اسلام آباد انتظامیہ کو ہدایات جاری کی گئی ہیں کہ وہ شہر میں موجود تمام گوشت سپلائرز، ہوٹلز اور گوداموں کا فوری طور پر معائنہ کریں تاکہ آئندہ اس قسم کے واقعات کو روکا جا سکے۔
عوامی سطح پر یہ مطالبہ بھی زور پکڑ رہا ہے کہ اس واقعہ کی مکمل رپورٹ جاری کی جائے اور متعلقہ افراد کے خلاف کارروائی کی جائے۔ علاوہ ازیں، قانون سازی کے ذریعے ایسے جرائم کی سزا کو سخت سے سخت کیا جائے تاکہ کسی کو آئندہ اس طرح کا اقدام کرنے کی جرات نہ ہو۔
اسلام آباد کے شہریوں نے پولیس کی اس کارروائی کو سراہا ہے اور امید ظاہر کی ہے کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے آئندہ بھی ایسی چوکسی کا مظاہرہ کرتے رہیں گے۔ تاہم، اس کے ساتھ ساتھ شفافیت اور جواب دہی کا نظام بھی ضروری ہے تاکہ عوام کو اعتماد ہو کہ ان کی صحت اور خوراک کے معیار پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہو رہا۔
یہ واقعہ نہ صرف ایک جرم کو بے نقاب کرتا ہے بلکہ ایک بڑے سماجی اور انتظامی مسئلے کی نشاندہی بھی کرتا ہے۔ اگرچہ ابتدائی رپورٹ نے گوشت کی مقامی فروخت کے امکانات کو رد کر دیا ہے، تاہم اس نے بہت سے اہم سوالات بھی جنم دیے ہیں جن کا جواب دینا متعلقہ اداروں کی ذمہ داری ہے۔
پولیس، فوڈ اتھارٹی، اور وفاقی حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ نہ صرف اس کیس کو منطقی انجام تک پہنچائیں بلکہ مستقبل میں اس نوعیت کی اسمگلنگ، غیر معیاری خوراک کی پیداوار اور صحت سے متعلق خطرات کی روک تھام کے لیے ایک مربوط حکمت عملی اپنائیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ عوام کو بھی اعتماد میں لیا جائے اور ان کے تحفظ کے لیے ہر ممکن اقدامات کیے جائیں۔