اسرائیل کا دوحا پر فضائی حملہ، قطری ایف 15 جنگی جہاز حرکت میں آگئے
اسرائیل کا دوحا پر فضائی حملہ: مشرق وسطیٰ کے امن کو نیا دھچکا، قطر کا دفاعی ردعمل اور حماس کی قیادت کو نشانہ بنانے کی کوشش
مشرق وسطیٰ کی سیاست ایک بار پھر خطرناک موڑ پر پہنچ گئی ہے، جب اسرائیل نے ایک حیران کن اقدام کرتے ہوئے قطر کے دارالحکومت دوحا پر فضائی حملہ کیا۔ اس حملے کا ہدف مبینہ طور پر فلسطینی مزاحمتی تنظیم "حماس” کی اعلیٰ قیادت تھی، جو اس وقت ایک خفیہ اجلاس میں شریک تھی۔ اس اچانک حملے کے بعد قطر کی فضاؤں میں ایف-15 جنگی طیارے گشت کرتے دیکھے گئے، جس سے نہ صرف علاقائی کشیدگی میں اضافہ ہوا بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی شدید ردعمل سامنے آیا ہے۔
حملے کا پس منظر
مبینہ طور پر یہ فضائی حملہ ایک ایسے وقت میں کیا گیا جب حماس کی قیادت دوحا میں موجود تھی اور وہاں ایک اہم اجلاس جاری تھا۔ ذرائع کے مطابق یہ اجلاس امریکی صدر کی جانب سے غزہ میں جنگ بندی کے مجوزہ منصوبے پر غور کے لیے بلایا گیا تھا۔ اس اجلاس میں حماس کے کئی مرکزی اور سینیئر رہنما شریک تھے، جن میں خلیل الحیہ کا نام خاص طور پر لیا جا رہا ہے۔ تاہم خلیل الحیہ کی شہادت کی اطلاعات تاحال متضاد ہیں، اور حماس یا قطری حکومت کی جانب سے اس بارے میں باضابطہ تصدیق یا تردید سامنے نہیں آئی۔
اسرائیل کا مؤقف
اسرائیلی فوج نے اپنے ایک مختصر بیان میں تصدیق کی ہے کہ اس نے "دوحا میں حماس کی اعلیٰ قیادت کو نشانہ بنایا”۔ اسرائیلی فوج کا دعویٰ ہے کہ یہ حملہ ایک "انٹیلی جنس بیسڈ اسٹرائیک” تھا، جس کا مقصد حماس کی قیادت کو کمزور کرنا تھا تاکہ خطے میں "دہشتگردی” کی منصوبہ بندی روکی جا سکے۔
اسرائیل کا یہ موقف حیران کن ہے، کیونکہ قطر ایک خودمختار ریاست ہے جو اسرائیل سے براہ راست حالت جنگ میں نہیں ہے۔ بین الاقوامی قوانین کی روشنی میں کسی خودمختار ملک پر اس طرح کی فوجی کارروائی کھلی جارحیت تصور کی جاتی ہے، اور اس کے سنگین نتائج ہو سکتے ہیں۔
قطر کا ردعمل: فضاؤں میں ایف-15 طیارے
اس حملے کے فوراً بعد قطر نے نہایت تیز رفتاری سے دفاعی ردعمل دیا۔ قطری ایئرفورس کے ایف-15 جنگی طیارے فوراً فضا میں بلند ہوئے اور دوحا کے گرد گشت کرتے رہے۔ یہ اقدام ممکنہ طور پر کسی مزید حملے کو روکنے یا فوری دفاعی تیاری کا حصہ تھا۔ سوشل میڈیا پر متعدد ویڈیوز گردش کر رہی ہیں جن میں دیکھا جا سکتا ہے کہ دوحا کی فضاؤں میں جدید جنگی طیارے گشت کر رہے ہیں، جس سے شہریوں میں خوف و ہراس کی فضا پیدا ہو گئی ہے۔
علاقائی و عالمی ردعمل
اسرائیلی حملے کے بعد دنیا بھر سے مختلف ردعمل سامنے آ رہے ہیں۔ ترکی، ایران، اور کئی عرب ممالک نے اس حملے کی شدید مذمت کی ہے اور اسے قطر کی خودمختاری کی کھلی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے بھی بیان جاری کیا ہے کہ "کسی خودمختار ریاست پر اس طرح کا حملہ بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے اور اس سے علاقائی امن خطرے میں پڑ سکتا ہے۔”
امریکہ کی جانب سے تاحال کوئی واضح بیان سامنے نہیں آیا، تاہم یہ بات اہم ہے کہ حملے سے قبل حماس کے رہنما امریکی امن منصوبے پر غور کر رہے تھے۔ اس سے کچھ تجزیہ کار یہ نتیجہ اخذ کر رہے ہیں کہ اسرائیل اس عمل کو سبوتاژ کرنا چاہتا تھا تاکہ حماس کی صفوں میں انتشار پیدا ہو۔
حماس کی پوزیشن اور ممکنہ ردعمل
حماس کے ترجمان نے حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ "یہ حملہ نہ صرف قطر کی سالمیت پر حملہ ہے بلکہ فلسطینی عوام کے نمائندہ ادارے کو ختم کرنے کی کوشش ہے۔” حماس نے واضح کیا ہے کہ ان کے رہنماؤں پر حملہ کرکے اسرائیل خطے میں امن کی ہر کوشش کو ناکام بنانا چاہتا ہے۔
اگر خلیل الحیہ کی شہادت کی تصدیق ہو جاتی ہے تو یہ واقعہ حماس کے لیے ایک بہت بڑا دھچکا ہو گا، کیونکہ وہ تنظیم کے ایک نظریاتی ستون سمجھے جاتے تھے۔ اس کے بعد حماس کی جانب سے جوابی کارروائی یا کسی نئی حکمت عملی کا اعلان بھی متوقع ہے۔
قطر کی سفارتی حکمت عملی
قطر نے اب تک سفارتی محاذ پر محتاط رویہ اپنایا ہے، تاہم موجودہ حملے نے اسے کھل کر میدان میں آنے پر مجبور کر دیا ہے۔ امکان ہے کہ قطر اقوام متحدہ میں رسمی شکایت درج کرائے گا اور عالمی عدالت انصاف سے بھی رجوع کر سکتا ہے۔ ساتھ ہی قطر اپنی دفاعی صلاحیتوں میں اضافے اور اسرائیل کے خلاف ممکنہ سفارتی اتحاد بنانے کی کوشش کر سکتا ہے۔
یہ بھی ممکن ہے کہ قطر مستقبل میں اسرائیل کے ساتھ کسی بھی قسم کے مذاکرات یا پس پردہ روابط کو مکمل طور پر ختم کر دے، جو کہ موجودہ وقت تک کسی نہ کسی حد تک موجود تھے۔
علاقائی کشیدگی اور خطرات
یہ واقعہ نہ صرف قطر اور اسرائیل کے درمیان کشیدگی کو جنم دے سکتا ہے بلکہ پورے خلیج اور مشرق وسطیٰ میں ایک نئی جنگی لہر کو ہوا دے سکتا ہے۔ خاص طور پر اگر ایران، ترکی یا دیگر طاقتور ریاستیں قطر کی حمایت میں کھل کر سامنے آتی ہیں تو صورتحال مزید سنگین ہو سکتی ہے۔
امکان ہے کہ حماس کی دیگر شاخیں، خاص طور پر لبنان، شام یا یمن میں موجود تنظیمیں، اس واقعے کو بہانہ بنا کر اسرائیل کے خلاف کارروائیاں شروع کر دیں۔ اس طرح ایک محدود فضائی حملہ خطے میں ایک بڑے تنازع کی چنگاری ثابت ہو سکتا ہے۔
اسرائیل کا دوحا پر فضائی حملہ مشرق وسطیٰ میں ایک نئے اور خطرناک باب کا آغاز ہو سکتا ہے۔ یہ صرف ایک حملہ نہیں، بلکہ بین الاقوامی سفارتی اصولوں، ریاستی خودمختاری، اور علاقائی توازن پر ایک کھلا حملہ ہے۔ قطر کا فوری دفاعی ردعمل، علاقائی مذمت، اور حماس کی ممکنہ حکمت عملی اس بحران کے اگلے مراحل کا تعین کرے گی۔
عالمی برادری کو چاہیے کہ وہ فوری طور پر اس واقعے کا نوٹس لے اور اس قسم کی کارروائیوں کو روکنے کے لیے سخت اقدامات کرے۔ بصورت دیگر، مشرق وسطیٰ ایک اور بڑی جنگ کی طرف بڑھتا دکھائی دے رہا ہے، جس کے نتائج پوری دنیا کو بھگتنا پڑ سکتے ہیں۔


Comments 3