آزاد کشمیر مذاکرات 2025: عوامی مطالبات پر حکومت اور جوائنٹ ایکشن کمیٹی میں پیش رفت
حالیہ دنوں میں آزاد کشمیر میں پیدا ہونے والی عوامی بےچینی اور اس کے نتیجے میں ہونے والی احتجاجی تحریک نے قومی سطح پر توجہ حاصل کی ہے۔ مختلف معاشی و سماجی مسائل پر آواز بلند کرنے والی جوائنٹ ایکشن کمیٹی نے حکومت کو ان مطالبات پر غور کرنے پر مجبور کیا ہے۔ خوش آئند امر یہ ہے کہ وفاقی حکومت نے معاملے کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے مذاکرات کا راستہ اپنایا، اور اب مذاکرات کا دوسرا مرحلہ شروع ہو چکا ہے۔
وزیر پارلیمانی امور اور وزیراعظم کی مذاکراتی ٹیم کے رکن ڈاکٹر طارق فضل چودھری کے حالیہ بیان نے اس عمل کو ایک نیا رخ دیا ہے، جس میں انہوں نے واضح طور پر پُرامن مکالمے کی حمایت کی ہے اور عوامی مطالبات کو جائز قرار دیا ہے۔
مذاکرات: کشیدگی سے مفاہمت کی جانب
ڈاکٹر طارق فضل چودھری کے مطابق حکومت اور جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے درمیان مذاکرات کے دوسرے مرحلے کا آغاز ہو چکا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت کشمیری عوام کے ساتھ کھڑی ہے اور ان کے بیشتر مطالبات کو عوامی مفاد میں منظور کیا جا چکا ہے۔ تاہم چند ایسے مطالبات بھی ہیں جن پر عملدرآمد کے لیے آئینی ترامیم کی ضرورت ہے، اور اس پر بات چیت جاری ہے۔
یہ پیش رفت اس بات کی مظہر ہے کہ حکومت سنجیدگی کے ساتھ معاملات کو حل کرنا چاہتی ہے اور تصادم کے بجائے افہام و تفہیم کو ترجیح دے رہی ہے۔
کشمیری عوام کے ساتھ یکجہتی
ڈاکٹر طارق فضل چودھری کا کہنا تھا:
"ہم کشمیری عوام کے حقوق کے مکمل حامی ہیں۔ ان کے مطالبات سننا اور ان پر عمل کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔”
اس بیان سے واضح ہوتا ہے کہ وفاقی حکومت آزاد کشمیر کو محض ایک سیاسی اکائی کے طور پر نہیں، بلکہ عوامی احساسات اور ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک حساس اور اہم خطہ سمجھتی ہے۔ عوام کے بنیادی مسائل — جیسا کہ بجلی کی قیمتیں، روزگار، سبسڈی، اور مقامی ترقیاتی منصوبے — پر غور کرتے ہوئے عملی اقدامات کیے جا رہے ہیں۔
تشدد نہیں، مکالمہ حل ہے
پاکستان کی سیاسی تاریخ میں بدقسمتی سے اکثر احتجاج اور عوامی مطالبات کو دبانے کی کوشش کی جاتی رہی ہے، جس سے مسائل مزید بگڑ جاتے ہیں۔ تاہم حالیہ صورتحال میں حکومت کی جانب سے مذاکرات کی پیشکش اور عملیت پسندی کو ایک مثبت تبدیلی کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
ڈاکٹر طارق فضل چودھری نے کہا:
"ہم سمجھتے ہیں کہ تشدد کسی مسئلے کا حل نہیں۔ پُرامن مکالمہ ہی واحد راستہ ہے۔”
یہ بیان محض ایک سیاسی جملہ نہیں بلکہ ایک جمہوری رویے کا اظہار ہے، جو عوام اور ریاست کے درمیان فاصلوں کو کم کر سکتا ہے۔
کون سے مطالبات تسلیم ہو چکے ہیں؟
جوائنٹ ایکشن کمیٹی کی جانب سے پیش کیے گئے زیادہ تر مطالبات پر حکومت نے پیش رفت کا عندیہ دیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق ان میں شامل ہیں:
- بجلی کے نرخوں میں کمی پر بات چیت
- سبسڈی میں اضافہ
- بنیادی سہولیات کی فراہمی
- انتظامی اصلاحات
- مقامی حکومتوں کو بااختیار بنانے کے اقدامات
جبکہ کچھ اہم نکات — جیسے کہ آئینی حیثیت، اختیارات کی تقسیم، یا مالی خودمختاری — وہ امور ہیں جن پر براہ راست فیصلے ممکن نہیں اور ان کے لیے پارلیمانی اور آئینی سطح پر غور و خوض درکار ہے۔
آئینی دائرہ اور حکومت کی حدود
پاکستان میں ہر بڑا فیصلہ صرف ایگزیکٹو آرڈر سے ممکن نہیں۔ خاص طور پر جب بات آزاد کشمیر جیسے حساس علاقے کی ہو، جہاں کا اپنا آئینی ڈھانچہ اور حکومت موجود ہے، تو ایسے میں آئینی ترامیم اور بین الاداراتی مشاورت ناگزیر ہو جاتی ہے۔
طارق فضل چودھری نے اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے عوام سے اپیل کی کہ وہ حکومت کو آئینی عمل مکمل کرنے کا موقع دیں اور اشتعال انگیزی یا افواہوں سے گریز کریں۔
میڈیا اور سول سوسائٹی کا کردار
حکومت کی جانب سے میڈیا، سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی سے بھی مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ اس نازک موقع پر ذمہ داری کا مظاہرہ کریں۔ افواہوں، منفی پراپیگنڈا، یا اشتعال انگیز بیانات نہ صرف مذاکراتی عمل کو نقصان پہنچا سکتے ہیں بلکہ عوامی املاک اور جان و مال کو بھی خطرے میں ڈال سکتے ہیں۔
پُرامن تحریک صرف اسی وقت کامیاب ہو سکتی ہے جب اسے منظم، بامقصد اور حقیقت پر مبنی رکھا جائے۔
ایک مثبت سمت: مذاکرات کا تسلسل ضروری
موجودہ صورتحال کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ حکومت اور جوائنٹ ایکشن کمیٹی دونوں نے درست راستہ اختیار کیا ہے۔ مذاکرات کا جاری رہنا اور فریقین کا ایک دوسرے کو سننا، پاکستان کے سیاسی کلچر میں ایک خوش آئند تبدیلی کی علامت ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ:
- دونوں فریق سنجیدگی اور لچک کا مظاہرہ کریں
- عوام کے حقیقی مسائل پر توجہ دی جائے
- افہام و تفہیم کے عمل کو سست روی کا شکار نہ ہونے دیا جائے
- میڈیا، سوشل میڈیا اور دیگر پلیٹ فارمز کو مثبت بیانیے کے فروغ کے لیے استعمال کیا جائے
ایک نئی سیاسی روایت کی بنیاد
آزاد کشمیر میں عوامی مطالبات پر حکومت کا ردعمل، اور ڈاکٹر طارق فضل چودھری جیسے رہنماؤں کا مفاہمانہ مؤقف، ایک نئی سیاسی روایت کی بنیاد رکھ سکتا ہے — جہاں عوامی آواز کو دبایا نہیں جاتا بلکہ سنا جاتا ہے، اور مسائل کا حل گولی سے نہیں بلکہ بولی سے نکالا جاتا ہے۔
جیسا کہ طارق فضل چودھری نے اپنے بیان کے آخر میں کہا:
"آزاد کشمیر زندہ باد، پاکستان پائندہ باد۔”
یہ نعرہ صرف جذبے کا اظہار نہیں، بلکہ ایک متحد، پُرامن اور ترقی یافتہ ریاست کی امید بھی ہے — جہاں ہر شہری کا حق تسلیم کیا جائے، اور اختلاف کو تصادم کے بجائے مکالمے سے حل کیا جائے۔
