خاور حسین کا پوسٹ مارٹم: دوبارہ معائنہ نے معاملے کو مزید پیچیدہ بنا دیا
سانگھڑ سے تعلق رکھنے والے صحافی خاور حسین کی اچانک اور پرُاسرار موت نے پورے میڈیا حلقوں اور عوام کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ دو روز قبل حیدرآباد روڈ پر ان کی لاش گاڑی کے اندر سے ملی تھی جس کے بعد پولیس نے ابتدائی طور پر اسے خودکشی قرار دیا۔ تاہم واقعے پر صحافی تنظیموں اور عوامی ردِعمل نے کئی نئے سوالات کھڑے کیے، جس کے نتیجے میں حکام نے دوبارہ پوسٹ مارٹم کا فیصلہ کیا۔
دوبارہ پوسٹ مارٹم کیوں کیا گیا؟
ابتدائی رپورٹ میں کہا گیا کہ خاور حسین کے سر میں گولی کا زخم ہے جو مبینہ طور پر ان کے اپنے لائسنس یافتہ پستول سے چلائی گئی۔ اس بنیاد پر پولیس نے اسے خودکشی قرار دینے کی کوشش کی۔ لیکن خاندانی ذرائع اور صحافی برادری نے اس نتیجے کو قبول نہیں کیا۔ ان کا مؤقف تھا کہ معاملے میں کئی مشکوک پہلو ہیں اور شفاف تحقیقات کے بغیر اس کو خودکشی کہنا قبل از وقت ہوگا۔ یہی وجہ تھی کہ اعلیٰ حکام نے خاور حسین کا پوسٹ مارٹم دوبارہ کرانے کی ہدایت دی۔

میڈیکل بورڈ کی تشکیل اور طریقہ کار
سول اسپتال حیدرآباد میں پولیس سرجن ڈاکٹر وسیم خان کی نگرانی میں 3 رکنی میڈیکل بورڈ تشکیل دیا گیا۔ اس ٹیم میں فارنزک ماہر بھی شامل تھے۔ بورڈ نے لاش کا تفصیلی معائنہ کیا اور مختلف نمونے حاصل کرکے لیبارٹری بھجوا دیے۔ ڈاکٹر وسیم خان کے مطابق، جسم پر کسی قسم کے تشدد یا زخم کے آثار نہیں ملے۔ البتہ حتمی رائے فارنزک رپورٹ کے بعد ہی دی جا سکے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ خاور حسین کا پوسٹ مارٹم کی ابتدائی رپورٹ ایک دو روز میں جاری کر دی جائے گی، جبکہ مکمل رپورٹ آنے میں وقت لگے گا۔
پولیس کا مؤقف
پولیس حکام کے مطابق گاڑی سے برآمد ہونے والا پستول خاور حسین کے نام پر رجسٹرڈ اور لائسنس یافتہ تھا۔ سر میں لگی گولی بھی اسی پستول سے فائر ہوئی۔ پولیس کا کہنا ہے کہ بظاہر معاملہ خودکشی کا ہے لیکن چونکہ میڈیکل بورڈ نے دوبارہ معائنہ کیا ہے، اس لیے وہ حتمی رپورٹ کا انتظار کریں گے تاکہ آئندہ قانونی کارروائی کو آگے بڑھایا جا سکے۔
صحافی برادری کے تحفظات
صحافی تنظیموں نے خاور حسین کی موت کو محض خودکشی قرار دینے پر شدید تحفظات ظاہر کیے ہیں۔ ان کے مطابق، ایک سرگرم صحافی کی اچانک موت کسی بڑے دباؤ یا سازش کا نتیجہ بھی ہو سکتی ہے۔ ان کا مطالبہ ہے کہ اس معاملے کو کھلے اور شفاف انداز میں دیکھا جائے تاکہ حقیقت سامنے آ سکے۔
عوامی ردِعمل
عوامی حلقوں میں بھی اس واقعے پر شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ سوشل میڈیا پر بحث جاری ہے کہ اگر یہ خودکشی ہے تو اس کے پیچھے کیا وجوہات تھیں؟ کچھ صارفین کا کہنا ہے کہ خاور حسین ذہنی دباؤ میں تھے جبکہ دیگر کا خیال ہے کہ ان کی پیشہ وارانہ ذمہ داریوں کے باعث انہیں خطرات لاحق تھے۔ عوام کی رائے یہ ہے کہ جب تک حتمی رپورٹ سامنے نہیں آتی، اس معاملے کو صرف خودکشی یا قتل قرار دینا درست نہیں ہوگا۔
پس منظر
یاد رہے کہ دو روز قبل سانگھڑ کے قریب حیدرآباد روڈ سے خاور حسین کی لاش ان کی ذاتی گاڑی سے ملی تھی۔ اس وقت پولیس نے اسے فوری طور پر خودکشی کا واقعہ قرار دیا تھا، لیکن بڑھتے دباؤ اور احتجاج کے بعد دوبارہ پوسٹ مارٹم کا فیصلہ کیا گیا۔
اہم سوال: قتل یا خودکشی؟
اب اصل سوال یہ ہے کہ آیا خاور حسین کی موت واقعی خودکشی ہے یا اس کے پیچھے کوئی اور محرک ہے؟ دوبارہ پوسٹ مارٹم کے بعد تحقیقات میں مزید وضاحت کی توقع کی جا رہی ہے۔ اگرچہ جسم پر تشدد کے آثار نہیں ملے، لیکن فارنزک رپورٹس سامنے آنے کے بعد ہی اصل حقیقت سامنے آ سکے گی۔
READ MORE FAQs
خاور حسین کی پوسٹ مارٹم رپورٹ میں کیا بتایا گیا؟
ابتدائی رپورٹ کے مطابق جسم پر تشدد یا زخم کے کوئی نشانات موجود نہیں تھے۔
کیا خاور حسین کی موت کو خودکشی قرار دیا گیا ہے؟
پولیس نے ابتدائی شواہد کی بنیاد پر خودکشی کا امکان ظاہر کیا، تاہم حتمی رائے فارنزک رپورٹ کے بعد ہی سامنے آئے گی۔
پوسٹ مارٹم کس نے کیا؟
سول اسپتال حیدرآباد میں تین رکنی میڈیکل بورڈ نے پوسٹ مارٹم کیا، جس میں ایک فارنزک ماہر بھی شامل تھا۔