خیبر پختونخوا میں حالیہ دنوں ہونے والی شدید بارشوں اور فلش فلڈنگ نے صوبے کے کئی اضلاع کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے
جس کے نتیجے میں ہونے والے مختلف حادثات میں اب تک جاں بحق ہونے والے افراد کی تعداد 406 تک پہنچ گئی ہے جبکہ 247 افراد زخمی ہیں۔ بارشوں کے تسلسل اور سیلابی ریلوں نے نہ صرف قیمتی جانیں لیں بلکہ ہزاروں گھروں، بنیادی ڈھانچے اور فصلوں کو بھی نقصان پہنچایا ہے، جس کے باعث صوبہ اس وقت ایک بڑے انسانی المیے سے دوچار ہے۔
انسانی جانوں کا نقصان
پراونشل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (پی ڈی ایم اے) کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق جاں بحق ہونے والوں میں 305 مرد، 55 خواتین اور 46 بچے شامل ہیں۔ زخمی ہونے والوں میں 179 مرد، 38 خواتین اور 30 بچے شامل ہیں۔ ان اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ حالیہ بارشوں اور فلش فلڈنگ نے ہر عمر اور طبقے کو متاثر کیا ہے اور کئی خاندانوں کے چراغ گل ہو گئے ہیں۔
ڈی آئی خان اور دیگر اضلاع میں نقصانات
ضلع ڈیرہ اسماعیل خان (ڈی آئی خان) میں گزشتہ رات ہونے والی شدید بارش نے مزید تباہی مچا دی۔ گھروں کی چھتیں گرنے کے باعث 8 افراد جاں بحق اور 48 زخمی ہوئے۔ بونیر سب سے زیادہ متاثرہ ضلع قرار پایا ہے، جہاں اب تک 337 اموات کی تصدیق ہوچکی ہے۔ صوابی میں بھی 46 افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ دیگر متاثرہ اضلاع میں سوات، باجوڑ، مانسہرہ، شانگلہ، دیر لوئر اور بٹگرام شامل ہیں، جہاں ہر طرف تباہی کے مناظر ہیں۔
مکانات کی تباہی
پی ڈی ایم اے کی رپورٹ کے مطابق بارشوں اور فلش فلڈنگ سے مجموعی طور پر 3526 گھروں کو نقصان پہنچا۔ ان میں 2945 گھروں کو جزوی جبکہ 577 گھروں کو مکمل طور پر منہدم قرار دیا گیا ہے۔ ایسے میں متاثرہ خاندان کھلے آسمان تلے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں اور ہزاروں بچے، خواتین اور بزرگ عارضی پناہ گاہوں میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔
حکومتی اقدامات
صوبائی حکومت اور ضلعی انتظامیہ نے فوری طور پر امدادی سرگرمیاں تیز کرنے کی ہدایات جاری کی ہیں۔ متاثرہ اضلاع میں ریسکیو آپریشن جاری ہے اور متاثرین کو راشن، خیمے، کمبل اور طبی امداد فراہم کی جا رہی ہے۔ افواجِ پاکستان، پولیس، ریسکیو 1122 اور دیگر ادارے بھی امدادی کاموں میں حصہ لے رہے ہیں۔ پی ڈی ایم اے کا ایمرجنسی آپریشن سینٹر 24 گھنٹے فعال ہے، جبکہ عوام کسی بھی ناخوشگوار واقعے یا ہنگامی صورتحال میں ہیلپ لائن 1700 پر رابطہ کر سکتے ہیں۔

عوامی مشکلات
متاثرین کا کہنا ہے کہ بارشوں نے ان کے گھر، کھیت اور مویشی تباہ کر دیے ہیں۔ بہت سے علاقوں میں پینے کے صاف پانی کی کمی، بجلی کی بندش اور خوراک کی قلت جیسے مسائل نے زندگی مزید مشکل بنا دی ہے۔ کئی مقامات پر سڑکیں اور پل بہہ جانے سے آمدورفت بھی معطل ہے جس کی وجہ سے امدادی کارروائیوں میں رکاوٹ پیش آرہی ہے۔
ماہرین کی رائے
ماہرین کے مطابق خیبر پختونخوا میں بارشوں سے مختلف حادثات بار بار پیش آنے کی بڑی وجہ بے ہنگم تعمیرات، درختوں کی کٹائی اور نکاسی آب کے ناقص نظام ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر فوری طور پر جامع منصوبہ بندی نہ کی گئی تو آنے والے برسوں میں ایسے سانحات میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔ ماحولیاتی ماہرین نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ جنگلات کے تحفظ اور نئے درخت لگانے کے ساتھ ساتھ اربن پلاننگ پر توجہ دی جائے تاکہ جانی و مالی نقصان کم کیا جا سکے۔
وزیراعظم اور وزیراعلیٰ کے بیانات
وزیراعظم شہباز شریف نے بارشوں اور سیلاب سے ہونے والے نقصانات پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے متاثرہ خاندانوں کے ساتھ ہمدردی کرتے ہوئے کہا ہے کہ وفاقی حکومت صوبائی حکومت کے ساتھ کھڑی ہے اور متاثرین کو تنہا نہیں چھوڑا جائے گا۔ وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا نے بھی ریسکیو اور ریلیف سرگرمیوں کو تیز کرنے کی ہدایات جاری کرتے ہوئے کہا کہ ہر ممکن وسائل متاثرہ علاقوں میں بھیجے جائیں گے۔

مستقبل کے چیلنجز
یہ بات واضح ہے کہ خیبر پختونخوا میں بارشوں سے مختلف حادثات اب ایک معمول بنتے جا رہے ہیں۔ بدلتے ہوئے موسمی حالات، گلیشیئرز کے پگھلنے اور ناقص ڈھانچے کے باعث صوبہ ہر سال شدید نقصان برداشت کرتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر فوری طور پر حفاظتی بند، ڈرینیج سسٹم اور محفوظ رہائشی منصوبے نہ بنائے گئے تو یہ نقصان کئی گنا بڑھ سکتا ہے۔
خیبر پختونخوا میں حالیہ بارشوں اور فلش فلڈنگ نے ایک بار پھر واضح کر دیا ہے کہ پاکستان کو قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے مضبوط اور مؤثر حکمت عملی اپنانا ہوگی۔ انسانی جانوں کا نقصان اور ہزاروں گھروں کی تباہی اس بات کی گواہی ہے کہ ابھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ حکومت، اداروں اور عوام کو مل کر ایسے اقدامات کرنے ہوں گے جو مستقبل میں ایسے سانحات کی شدت کو کم کر سکیں۔
READ MORE FAQs
خیبر پختونخوا میں بارشوں سے سب سے زیادہ متاثرہ ضلع کون سا ہے؟
بونیر سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے، جہاں اب تک 337 اموات ہوچکی ہیں۔
پی ڈی ایم اے کی رپورٹ کے مطابق کتنے گھر تباہ ہوئے ہیں؟
3526 گھروں کو نقصان پہنچا، جن میں سے 577 مکمل طور پر منہدم ہوئے۔
امدادی سرگرمیوں میں کون سے ادارے شامل ہیں؟
افواج پاکستان، ریسکیو 1122، پولیس اور ضلعی انتظامیہ امدادی کاموں میں حصہ لے رہے ہیں۔
Comments 1