کاروباری ہفتے کے آخری روز اسٹاک مارکیٹ میں بھاری مندی، روپے کی قدر میں بہتری
پاکستان کی مالیاتی منڈیوں میں حالیہ دنوں کے دوران ایک غیر معمولی تبدیلی دیکھنے کو ملی ہے۔ جہاں ایک طرف پاکستان اسٹاک ایکسچینج (PSX) میں شدید مندی کا رجحان غالب رہا اور انڈیکس نے دو بڑی حدیں کھو دیں، وہیں دوسری جانب کرنسی مارکیٹ میں ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں معمولی لیکن خوش آئند بہتری ریکارڈ کی گئی ہے۔
یہ دو متضاد مالیاتی اشاریے ایک ایسے وقت میں سامنے آئے ہیں جب ملکی معیشت مختلف چیلنجز کا سامنا کر رہی ہے، جن میں مہنگائی، سیاسی غیر یقینی، اور آئی ایم ایف کے ساتھ جاری مذاکرات سرفہرست ہیں۔ اس مضمون میں ان دونوں مالیاتی رجحانات کا تفصیلی جائزہ پیش کیا جا رہا ہے۔
اسٹاک مارکیٹ میں شدید مندی: سرمایہ کاروں کو بڑا دھچکا
کاروباری ہفتے کے آخری روز، پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں منفی رجحان نے سرمایہ کاروں کو حیران کر دیا۔ جیسے ہی مارکیٹ کا آغاز ہوا، 100 انڈیکس میں 1996 پوائنٹس کی بھاری کمی ریکارڈ کی گئی۔ اس غیر معمولی کمی کے بعد انڈیکس 1,65,000 کی نفسیاتی حد سے نیچے گر کر 1,62,534 پوائنٹس پر آ گیا۔
یہ کمی ایک دن میں ہونے والی اُن بڑی مندیوں میں سے ایک تھی جس نے نہ صرف سرمایہ کاروں کے اعتماد کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا بلکہ ملکی مالیاتی نظام کی غیر یقینی کیفیت کو بھی نمایاں کر دیا۔
وجوہات: مارکیٹ میں مندی کے پس پردہ عوامل
اسٹاک مارکیٹ میں اچانک مندی کی متعدد وجوہات ہو سکتی ہیں، جن میں:
سیاسی بے یقینی: موجودہ سیاسی حالات، حکومت کی مدت مکمل ہونے کے قریب، اور ممکنہ قبل از وقت انتخابات کی خبریں، سرمایہ کاروں میں بے اعتمادی پیدا کر رہی ہیں۔
آئی ایم ایف مذاکرات: پاکستان کا آئی ایم ایف کے ساتھ نیا بیل آؤٹ پیکج ابھی تک طے نہیں پایا، جس کے باعث مالیاتی مارکیٹس دباؤ کا شکار ہیں۔
معاشی اشاریوں میں بگاڑ: مہنگائی کی شرح میں مسلسل اضافہ، ٹیکس پالیسیوں میں تبدیلی، اور درآمدات پر پابندیاں بھی سرمایہ کاروں کے خدشات میں اضافے کا سبب بن رہی ہیں۔
بین الاقوامی منڈیوں کی صورتحال: عالمی سطح پر تیل اور اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ بھی مقامی مارکیٹوں پر اثر انداز ہو رہا ہے۔
سرمایہ کاروں کا ردعمل
مندی کے اس رجحان سے چھوٹے سرمایہ کاروں کو خاص طور پر بڑا نقصان ہوا ہے، جنہوں نے حالیہ مہینوں میں اسٹاک مارکیٹ کے مسلسل اوپر جانے کے رجحان کو دیکھتے ہوئے اپنی سرمایہ کاری میں اضافہ کیا تھا۔ کئی سرمایہ کاروں نے فوری طور پر اپنی حصص فروخت کر کے نقصان کم کرنے کی کوشش کی، جس سے مارکیٹ میں مزید دباؤ پیدا ہوا۔
روپے کی قدر میں بہتری: روشن پہلو؟
پاکستانی روپے کی قدر میں معمولی مگر اہم بہتری دیکھنے کو ملی ہے۔ ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن کے مطابق، انٹر بینک مارکیٹ میں ڈالر کی قیمت 10 پیسے کم ہو کر 281 روپے 10 پیسے ہو گئی ہے۔
اگرچہ یہ کمی بظاہر بہت چھوٹی ہے، لیکن یہ ایک مثبت اشارہ ہو سکتا ہے کہ زرمبادلہ مارکیٹ میں کچھ حد تک استحکام آ رہا ہے۔
روپے کی بہتری کی ممکنہ وجوہات
برآمدات میں بہتری: کچھ رپورٹوں کے مطابق، حالیہ مہینوں میں پاکستانی برآمدات میں معمولی بہتری دیکھنے میں آئی ہے، جس سے زرمبادلہ کے ذخائر پر دباؤ میں کمی آئی ہے۔
رمدان کے بعد ترسیلات زر میں اضافہ: بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی طرف سے بھیجی گئی ترسیلات میں اضافے نے ڈالر کی مانگ کو کچھ حد تک کم کیا ہے۔
حکومتی اقدامات: اسٹیٹ بینک آف پاکستان اور وزارت خزانہ کی طرف سے کرنسی مارکیٹ میں استحکام لانے کے لیے کیے گئے بعض اقدامات بھی اثرانداز ہو رہے ہیں۔
مالیاتی منڈیوں کی دو متضاد جہتیں: کیا یہ وقتی رجحان ہے یا کسی بڑی تبدیلی کا پیش خیمہ؟
ایک طرف اسٹاک مارکیٹ میں شدید مندی کا رجحان اور دوسری طرف کرنسی مارکیٹ میں روپے کی قدر میں بہتری، یہ دونوں بظاہر متضاد اشارے ہیں۔ اس صورتِ حال کو دیکھ کر ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ رجحانات وقتی بھی ہو سکتے ہیں اور کسی بڑی معاشی یا پالیسی تبدیلی کی تمہید بھی۔
اسٹاک مارکیٹ اور کرنسی مارکیٹ کا تعلق
عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ جب معیشت میں بہتری آتی ہے تو اسٹاک مارکیٹ اور کرنسی مارکیٹ دونوں میں مثبت رجحان دیکھنے کو ملتا ہے۔ تاہم موجودہ صورتحال میں اسٹاک مارکیٹ میں گراوٹ اور روپے میں بہتری اس بات کی علامت ہو سکتی ہے کہ مارکیٹ کے مختلف حصے الگ الگ رجحانات پر عمل پیرا ہیں۔
آنے والے دنوں میں کیا توقع کی جائے؟
اگر آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ طے پا جاتا ہے، تو اس کے مثبت اثرات نہ صرف روپے بلکہ اسٹاک مارکیٹ پر بھی مرتب ہو سکتے ہیں۔
سیاسی استحکام کی صورت میں سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال ہو سکتا ہے جس سے مارکیٹ میں دوبارہ بہتری آ سکتی ہے۔
عالمی منڈیوں میں استحکام بھی مقامی مالیاتی منڈیوں کے لیے سازگار ہو گا۔
ایک پیچیدہ مگر سنبھلتی ہوئی معیشت
موجودہ مالیاتی صورتحال اس امر کی عکاس ہے کہ پاکستان کی معیشت اس وقت ایک نازک موڑ پر کھڑی ہے۔ ایک طرف اسٹاک مارکیٹ کی شدید مندی ہے جو سرمایہ کاروں کی بے چینی کو ظاہر کرتی ہے، تو دوسری جانب روپے کی قدر میں بہتری ایک امید افزا اشارہ ہے کہ شاید زرمبادلہ کے ذخائر یا کرنسی مارکیٹ میں کچھ بہتری آ رہی ہے۔
تاہم، یہ کہنا قبل از وقت ہو گا کہ آیا یہ بہتری دیرپا ہو گی یا نہیں۔ ملکی معیشت کی سمت کا دارومدار آئندہ چند ہفتوں میں ہونے والے اہم فیصلوں، جیسے آئی ایم ایف معاہدہ، آئندہ بجٹ، اور سیاسی استحکام پر ہوگا۔
ملکی قیادت کو اب ان تمام پہلوؤں کا سنجیدگی سے جائزہ لیتے ہوئے ٹھوس اور دیرپا اقدامات کرنے کی ضرورت ہے تاکہ نہ صرف اسٹاک مارکیٹ بلکہ معیشت کے دیگر شعبوں میں بھی اعتماد بحال ہو سکے۔