وزیراعظم شہباز شریف اور صدر پیوٹن کی ملاقات اگلے ہفتے طے، اہم علاقائی اور عالمی امور زیر غور آئیں گے
اسلام آباد — پاکستان اور روس کے تعلقات میں ایک نیا باب کھلنے جا رہا ہے کیونکہ اگلے ہفتے وزیراعظم شہباز شریف اور روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کے درمیان ایک اہم ملاقات طے پا گئی ہے۔ یہ ملاقات چین میں ہونے والے شنگھائی تعاون تنظیم (SCO) سمٹ کے موقع پر سائیڈ لائنز پر منعقد ہوگی۔
ذرائع کے مطابق، شہباز شریف اور صدر پیوٹن کی ملاقات میں دو طرفہ تعلقات، خطے کی سلامتی کی صورتحال اور عالمی معاملات پر تفصیلی بات چیت ہو گی۔ شہباز شریف اور صدر پیوٹن کی ملاقات ایسے وقت میں ہو رہی ہے جب پاکستان خطے کے بڑے ممالک کے ساتھ تعلقات کو وسعت دینے اور عالمی سطح پر اپنی سفارتی پوزیشن کو مستحکم کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
شہباز شریف اور صدر پیوٹن کی ملاقات کا ایجنڈا
سفارتی ذرائع کے مطابق، اجلاس میں درج ذیل امور پر مشاورت متوقع ہے:
پاکستان اور روس کے درمیان توانائی، تجارت اور سرمایہ کاری کے شعبوں میں تعاون کو فروغ دینا۔
خطے میں امن و استحکام خصوصاً افغانستان کی صورتحال پر تبادلہ خیال۔
عالمی سطح پر پیدا ہونے والے نئے چیلنجز اور جغرافیائی سیاست کے اثرات پر بات چیت۔
شنگھائی تعاون تنظیم کے دائرہ کار میں رکن ممالک کے درمیان تعاون کو مزید مضبوط کرنا۔
دیگر اہم ملاقاتیں
وزیراعظم شہباز شریف کے دورہ چین کے دوران دیگر عالمی رہنماؤں سے ملاقاتیں بھی طے ہیں۔
چینی صدر شی جن پنگ کے ساتھ ایک تفصیلی اجلاس ہوگا جس میں پاک-چین تعلقات، سی پیک منصوبے اور خطے کی سلامتی کے حوالے سے بات چیت ہوگی۔
ترک صدر رجب طیب اردوان اور آذربائیجان کے صدر الہام علیوف سے بھی ملاقات متوقع ہے۔
ذرائع کے مطابق دیگر کئی عالمی رہنماؤں سے بھی بات چیت کے امکانات ہیں جو پاکستان کے لیے سفارتی سطح پر اہمیت رکھتے ہیں۔
وزیراعظم شہباز شریف 30 اگست کو چین روانہ ہوں گے اور شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس میں پاکستان کی نمائندگی کریں گے۔
مستقبل کے دورے — امریکا اور برطانیہ
ذرائع نے مزید بتایا ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف اگلے ماہ امریکا کے سرکاری دورے پر بھی جائیں گے۔
امریکا میں ان کی ملاقات امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے متوقع ہے۔
وہ نیویارک میں اقوام متحدہ جنرل اسمبلی (UNGA) کے اجلاس میں شرکت کریں گے اور عالمی رہنماؤں سے خطاب بھی کریں گے۔
دورہ امریکا سے قبل وزیراعظم برطانیہ کا بھی دورہ کریں گے جہاں مختلف سیاسی اور اقتصادی ملاقاتیں طے ہیں۔


یہ دورے پاکستان کی عالمی سطح پر بڑھتی ہوئی سفارتی سرگرمیوں اور علاقائی تعلقات کے فروغ کی کوششوں کا حصہ ہیں۔
پاکستان-روس تعلقات کی اہمیت
پاکستان اور روس کے تعلقات تاریخی اتار چڑھاؤ کے بعد حالیہ برسوں میں بتدریج بہتر ہو رہے ہیں۔ دونوں ممالک نے توانائی کے شعبے میں تعاون، دفاعی روابط اور تجارتی تعلقات بڑھانے میں دلچسپی ظاہر کی ہے۔
روس کی جانب سے پاکستان میں گیس پائپ لائن منصوبہ (Pakistan Stream Gas Pipeline) اور دیگر توانائی منصوبے پاکستان کی معیشت کے لیے کلیدی حیثیت رکھتے ہیں۔
دفاعی میدان میں بھی دونوں ممالک کے درمیان مشترکہ مشقیں اور تعاون وقتاً فوقتاً جاری رہتے ہیں۔
شنگھائی تعاون تنظیم (SCO) دونوں ممالک کے تعلقات کو مزید مضبوط بنانے کا ایک اہم پلیٹ فارم ہے۔
گریٹر اسرائیل منصوبہ پاکستان مسترد کرتا ہے، اسحٰق ڈار کا او آئی سی اجلاس سے خطاب
خطے کی سلامتی پر گفتگو
شہباز شریف اور صدر پیوٹن کی ملاقات میں خطے کی سلامتی کے امور بھی اہم ایجنڈا ہوں گے۔ افغانستان میں غیر یقینی صورتحال، وسطی ایشیا کے مسائل اور مشرق وسطیٰ کی کشیدگی ایسے نکات ہیں جن پر دونوں رہنما تبادلہ خیال کریں گے۔ پاکستان کا مؤقف ہے کہ خطے میں امن و استحکام تمام ممالک کے مشترکہ مفاد میں ہے، جبکہ روس بھی افغانستان اور وسطی ایشیا کے مسائل میں براہ راست دلچسپی رکھتا ہے۔
ماہرین کی رائے
سیاسی اور سفارتی ماہرین کا کہنا ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف اور صدر پیوٹن کی ملاقات پاکستان کی خارجہ پالیسی کے لیے ایک اہم سنگ میل ثابت ہو سکتی ہے۔
ماہرین کے مطابق پاکستان کی کوشش ہے کہ وہ مغربی دنیا کے ساتھ ساتھ مشرقی طاقتوں یعنی چین اور روس کے ساتھ بھی اپنے تعلقات کو متوازن انداز میں آگے بڑھائے۔
روس کے ساتھ تعلقات بڑھنے سے پاکستان کو توانائی کے بحران پر قابو پانے اور تجارتی مواقع بڑھانے میں مدد مل سکتی ہے۔
شنگھائی تعاون تنظیم میں پاکستان کا کردار بھی مزید نمایاں ہو گا۔
وزیراعظم شہباز شریف کا یہ دورہ اور شہباز شریف اور صدر پیوٹن کی ملاقات پاکستان کے سفارتی ایجنڈے کے لیے نہایت اہمیت رکھتی ہے۔ اس کے ذریعے نہ صرف پاکستان-روس تعلقات میں بہتری آئے گی بلکہ پاکستان اپنی خارجہ پالیسی کو زیادہ متوازن اور خطے میں مؤثر بنانے کی جانب بھی قدم بڑھائے گا۔
دورہ چین، امریکا اور برطانیہ مل کر اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ پاکستان عالمی سطح پر اپنی موجودگی اور کردار کو نمایاں کرنے کے لیے بھرپور سرگرمی دکھا رہا ہے۔ آنے والے ہفتے ان ملاقاتوں کے تناظر میں پاکستان کی خارجہ پالیسی کے لیے فیصلہ کن حیثیت اختیار کر سکتے ہیں۔