پی ٹی آئی رہنماؤں کا پشاور ہائیکورٹ کا دروازہ کھٹکھٹانا
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سینئر رہنما اور اپوزیشن لیڈر قومی اسمبلی عمر ایوب اور سینیٹر شبلی فراز نے پارلیمانی سیٹوں سے ڈی نوٹیفائی کرنے کے فیصلے کے خلاف پشاور ہائیکورٹ میں درخواست دائر کر دی ہے۔ اس قانونی کارروائی نے ملک کے سیاسی منظرنامے میں ایک نئی ہلچل پیدا کر دی ہے۔
درخواستیں معروف وکیل بشیر وزیر ایڈووکیٹ کی وساطت سے دائر کی گئیں، جن میں الیکشن کمیشن آف پاکستان (ECP)، اسپیکر قومی اسمبلی اور چیئرمین سینیٹ کو فریق بنایا گیا ہے۔ دونوں رہنماؤں کا مؤقف ہے کہ ان کے خلاف ہونے والا یہ اقدام آئین، قانون اور عدالتی احکامات کی کھلی خلاف ورزی ہے۔
پس منظر: الیکشن کمیشن کا متنازع فیصلہ
5 اگست 2025 کو الیکشن کمیشن نے ایک نوٹیفکیشن جاری کرتے ہوئے اپوزیشن لیڈر قومی اسمبلی عمر ایوب اور سینیٹر شبلی فراز کو نااہل قرار دیا۔ اس فیصلے نے پی ٹی آئی کے اندر اور باہر دونوں سطح پر شدید ردعمل کو جنم دیا۔
الیکشن کمیشن کا کہنا تھا کہ یہ فیصلہ آئینی تقاضوں اور انتخابی ضابطوں کی بنیاد پر کیا گیا۔ تاہم پی ٹی آئی قیادت نے اسے "سیاسی انتقام” قرار دیا اور فوری طور پر قانونی چارہ جوئی کا فیصلہ کیا۔
پشاور ہائیکورٹ کا ابتدائی حکم
6 اگست کو پشاور ہائیکورٹ نے دونوں رہنماؤں کی درخواست پر ابتدائی سماعت کے بعد الیکشن کمیشن کو حکم دیا کہ وہ 5 اگست کے نوٹیفکیشن پر مزید کارروائی نہ کرے۔ اس حکم کا مقصد فریقین کو عدالت کے حتمی فیصلے تک Status Quo برقرار رکھنے کا موقع دینا تھا۔
عدالت نے واضح کیا کہ اس حکم کی خلاف ورزی آئین کے آرٹیکل 204 کے تحت توہین عدالت کے زمرے میں آئے گی۔
عدالتی حکم کے باوجود ڈی نوٹیفکیشن
تاہم، عدالتی احکامات کے باوجود، اسپیکر قومی اسمبلی نے عمر ایوب کی نشست خالی قرار دے دی اور چیئرمین سینیٹ نے شبلی فراز کو ڈی نوٹیفائی کر کے ان کی رکنیت ختم کر دی۔ یہ اقدام 7 اگست کو سرکاری طور پر جاری نوٹیفکیشنز کے ذریعے سامنے آیا۔
یہ عمل بظاہر عدالتی احکامات کی کھلی خلاف ورزی ہے، جس نے اس معاملے کو مزید سنگین بنا دیا ہے۔
درخواست کا مؤقف
درخواست میں موقف اپنایا گیا کہ:
عدالت نے واضح طور پر الیکشن کمیشن کو مزید کارروائی سے روک دیا تھا۔
اسپیکر اور چیئرمین سینیٹ آئینی عہدوں پر فائز ہیں اور انہیں عدالتی احکامات کا احترام کرنا چاہیے تھا۔
ڈی نوٹیفکیشن کا یہ عمل توہین عدالت ہے اور اس پر سخت قانونی کارروائی ہونی چاہیے۔
سیاسی تناظر اور ردعمل
پی ٹی آئی کے ترجمان نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا:
"یہ اقدامات حکومت کے سیاسی انتقام کی ایک اور مثال ہیں۔ ہم کسی صورت عوام کے ووٹوں سے منتخب نمائندوں کو غیر آئینی طریقے سے نکالنے کی اجازت نہیں دیں گے۔”
دوسری طرف، حکومتی وزراء کا کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن اور پارلیمانی اداروں نے آئین کے مطابق کارروائی کی ہے اور اپوزیشن اس معاملے کو سیاسی رنگ دے رہی ہے۔
قانونی ماہرین کی رائے
قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ:
عدالتی احکامات کی موجودگی میں کسی بھی ادارے کا متضاد قدم اٹھانا آئین کے آرٹیکل 204 اور توہین عدالت کے قوانین کے تحت جرم ہے۔
اگر یہ ثابت ہو جائے کہ ڈی نوٹیفکیشن عدالتی حکم کے بعد کیا گیا تو اسپیکر اور چیئرمین سینیٹ دونوں کو وضاحت دینی پڑے گی۔
ممکنہ آئندہ اقدامات
پشاور ہائیکورٹ آئندہ ہفتے اس معاملے پر مفصل سماعت کرے گی۔ اس دوران:
اسپیکر اور چیئرمین سینیٹ کو شوکاز نوٹس جاری ہو سکتا ہے۔
ڈی نوٹیفکیشن کا نوٹیفکیشن معطل ہو سکتا ہے۔
معاملہ سپریم کورٹ تک بھی جا سکتا ہے۔
سیاسی منظرنامے پر اثرات
یہ کیس پاکستان کی پارلیمانی سیاست میں کئی حوالوں سے اہمیت رکھتا ہے:
اپوزیشن کا مضبوط ہونا: اگر عدالت ڈی نوٹیفکیشن کو کالعدم قرار دیتی ہے تو یہ اپوزیشن کے لیے بڑی کامیابی ہوگی۔
حکومت کے لیے چیلنج: اس کیس میں شکست حکومت کے لیے سیاسی نقصان کا باعث بن سکتی ہے۔
اداروں کے تعلقات پر اثر: عدلیہ اور پارلیمانی اداروں کے درمیان تعلقات میں تناؤ بڑھ سکتا ہے۔
عوامی ردعمل
سوشل میڈیا پر #PTILeaders اور #DeNotification جیسے ہیش ٹیگز ٹاپ ٹرینڈ میں ہیں۔ عوام کا بڑا طبقہ اس اقدام کو "غیر آئینی” قرار دے رہا ہے، جبکہ کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ احتساب کا حصہ ہے۔
یہ کیس صرف دو رہنماؤں کی نشستوں کا نہیں بلکہ پاکستان کے سیاسی اور آئینی ڈھانچے کے احترام کا امتحان بھی ہے۔ آنے والے دنوں میں اس مقدمے کا فیصلہ نہ صرف پارلیمانی سیاست بلکہ ادارہ جاتی توازن پر بھی دور رس اثرات ڈال سکتا ہے۔
READ MORE FAQs
عمر ایوب اور شبلی فراز نے کس فیصلے کو چیلنج کیا؟
الیکشن کمیشن کے 5 اگست کے ڈی نوٹیفکیشن فیصلے کو۔
کیس میں کن کو فریق بنایا گیا ہے
الیکشن کمیشن، اسپیکر قومی اسمبلی، اور چیئرمین سینیٹ
پشاور ہائیکورٹ نے عبوری حکم میں کیا کہا؟
الیکشن کمیشن کو مزید کارروائی سے روک دیا۔
اسپیکر اور چیئرمین سینیٹ کا اقدام متنازع کیوں ہے؟
کیونکہ انہوں نے عدالتی حکم کے باوجود نشستیں خالی قرار دیں۔

Comments 1