پی ٹی آئی اراکین کے استعفے: عمران خان کی ہدایات پر بڑی سیاسی پیش رفت، قومی اسمبلی کی چار قائمہ کمیٹیوں سے چیئرمین بیرسٹر گوہر کا استعفیٰ
اسلام آباد : — پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی قیادت نے ایک بار پھر قومی سیاست میں ہلچل مچا دی ہے۔ چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر خان نے اپنے قائد عمران خان کی ہدایات پر قومی اسمبلی کی چار قائمہ کمیٹیوں سے استعفیٰ دے دیا ہے۔ اس فیصلے نے نہ صرف ایوان بالا بلکہ ملکی سیاست میں ایک نئی بحث کو جنم دیا ہے کہ آیا پی ٹی آئی واقعی پارلیمانی سیاست سے کنارہ کشی اختیار کر رہی ہے یا یہ ایک بڑی سیاسی حکمتِ عملی کا حصہ ہے۔
بیرسٹر گوہر کا استعفیٰ
ذرائع کے مطابق بیرسٹر گوہر خان قانون و انصاف، بزنس ایڈوائزری، انفارمیشن ٹیکنالوجی (آئی ٹی) اور انسانی حقوق کی کمیٹیوں سے مستعفی ہوئے۔ بیرسٹر گوہر کا استعفیٰ باقاعدہ طور پر قومی اسمبلی سیکرٹریٹ میں جمع اور میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا:
’’میں نے یہ فیصلہ اپنے قائد عمران خان اور پارٹی کی سیاسی کمیٹی کی ہدایات پر کیا ہے۔ یہ اقدام کسی ذاتی مقصد کے تحت نہیں بلکہ تحریک انصاف کی اجتماعی حکمتِ عملی کا حصہ ہے۔‘‘
اجتماعی استعفوں کی لہر
قومی اسمبلی کے ڈائریکٹر جنرل میڈیا ظفر سلطان خان نے تصدیق کی ہے کہ اب تک پی ٹی آئی کے 18 ممبران قومی اسمبلی نے قائمہ کمیٹیوں سے استعفیٰ دے دیا ہے۔ ان اراکین میں بیرسٹر گوہر خان، عامر ڈوگر، جنید اکبر، ثنا اللہ مستی خیل، زرمحمد خان، فضل محمد خان، علی اصغر خان، فیصل امین خان، محمد اقبال خان آفریدی اور مولانا نسیم علی شاہ شامل ہیں۔
پی ٹی آئی کے اراکین مجموعی طور پر 34 قائمہ کمیٹیوں کا حصہ تھے۔ یہ کمیٹیاں پارلیمانی نظام میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہیں کیونکہ یہاں قوانین کا ابتدائی جائزہ، نگرانی اور عوامی مفاد کے مسائل پر بحث کی جاتی ہے۔
عامر ڈوگر کا بیان
پی ٹی آئی کے چیف وہپ عامر ڈوگر نے بھی اپنے استعفے کا اعلان کرتے ہوئے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ایکس‘ پر لکھا:
’’میں نے اپنے لیڈر عمران خان کے حکم کے مطابق کمیٹیوں سے استعفیٰ دے دیا ہے۔ میرے لیے کوئی بھی عہدہ عمران خان سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتا۔ میری سیاست کا مقصد صرف عمران خان کا مشن، پاکستان کی حقیقی آزادی اور عوام کی خدمت ہے۔‘‘
عمران خان کی ہدایات
یاد رہے کہ 26 اگست کو اڈیالہ جیل میں پارٹی رہنماؤں سے ملاقات کے دوران عمران خان نے یہ واضح ہدایت دی تھی کہ پی ٹی آئی کے تمام اراکین پارلیمنٹ کی کمیٹیوں سے مستعفی ہو جائیں اور ضمنی انتخابات میں حصہ نہ لیں۔ عمران خان کے بقول:
’’ضمنی انتخابات میں حصہ لینا دراصل ان کو قانونی جواز فراہم کرنا ہوگا۔ ہمیں ان کے کھیل کا حصہ نہیں بننا چاہیے۔‘‘
ان کی بہن علیمہ خان نے بھی ملاقات کے بعد میڈیا کو بتایا تھا کہ پارٹی کو واضح ہدایات ملی ہیں کہ پارلیمانی کمیٹیوں میں مزید شرکت نہ کی جائے اور تمام پی ٹی آئی اراکین کے استعفے دیں۔
سیاسی تناظر
پاکستان کی پارلیمانی سیاست میں کمیٹیوں کا کردار کلیدی ہے۔ کمیٹیاں نہ صرف قوانین کی تیاری میں معاونت کرتی ہیں بلکہ حکومتی پالیسیوں پر بھی نگرانی کا کردار ادا کرتی ہیں۔ پی ٹی آئی اراکین کے استعفے دراصل اس بات کا اظہار ہے کہ پارٹی موجودہ پارلیمانی عمل پر عدم اعتماد کا شکار ہے۔
یہ سوال بھی اٹھ رہا ہے کہ کیا پی ٹی آئی واقعی ایوان سے مکمل علیحدگی چاہتی ہے یا یہ صرف ایک وقتی دباؤ ڈالنے کی حکمت عملی ہے۔ ماہرین سیاست کا کہنا ہے کہ یہ اقدام حکومت کو مشکل میں ڈال سکتا ہے کیونکہ پارلیمان میں حزب اختلاف کی آواز مزید کمزور ہو جائے گی، اور قانون سازی کا عمل یکطرفہ دکھائی دے گا۔
پی ٹی آئی رہنماؤں کے استعفے، قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹیوں میں بڑی تبدیلی
مستقبل کے امکانات
پارلیمان میں خلا: پی ٹی آئی اراکین کے استعفے جاری رہے اور ارکان کمیٹیوں سے الگ ہو گئے تو ان کمیٹیوں میں اپوزیشن کا کردار نہ ہونے کے برابر رہ جائے گا۔
حکومت پر دباؤ: پی ٹی آئی اس اقدام کے ذریعے حکومت کو یہ پیغام دینا چاہتی ہے کہ وہ پارلیمانی جواز کو تسلیم نہیں کرتی۔
سیاسی مزاحمت: پی ٹی آئی اراکین کے استعفے عوام میں یہ تاثر پیدا کریں گے کہ پی ٹی آئی اب بھی عمران خان کی قیادت میں متحد ہے اور حکومت کو آسانی سے سیاسی جواز نہیں دے گی۔
قانون سازی پر اثرات: اگر اپوزیشن کمیٹیوں سے باہر ہو گی تو حکومت کو یکطرفہ فیصلوں کا موقع ملے گا، لیکن اس کے ساتھ ساتھ ان قوانین کی سیاسی حیثیت بھی متنازع بن جائے گی۔

تجزیہ
سیاسی ماہرین کے مطابقپی ٹی آئی اراکین کے استعفے اور بیرسٹر گوہر کا استعفیٰ وقتی طور پر پارٹی کے کارکنان کو متحرک کرنے اور عوام کو یہ باور کرانے کے لیے ہے کہ پارٹی کسی بھی قیمت پر ’’اسٹیٹس کو‘‘ کو قبول نہیں کرے گی۔ تاہم طویل المدتی تناظر میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر اپوزیشن ہی پارلیمانی عمل سے باہر ہو جائے تو پھر عوام کی نمائندگی کا خلا کون پُر کرے گا۔
کچھ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ حکمت عملی پی ٹی آئی کے لیے خطرناک بھی ہو سکتی ہے کیونکہ اگر پارٹی بار بار پارلیمان کو چھوڑنے کا فیصلہ کرتی ہے پی ٹی آئی اراکین کے استعفے جمع ہو جاتے ہیں تو اس کا نتیجہ سیاسی تنہائی کی صورت میں نکل سکتا ہے۔
پی ٹی آئی اراکین کے استعفے محض ایک وقتی فیصلہ نہیں بلکہ یہ اس بات کا عندیہ ہے کہ پارٹی موجودہ نظام کو کسی بھی طور تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں۔ عمران خان نے ایک بار پھر واضح کر دیا ہے کہ ان کی سیاست کسی عہدے یا کرسی کے لیے نہیں بلکہ ایک ’’بڑے مقصد‘‘ کے لیے ہے۔
پارلیمانی کمیٹیوں سے استعفوں کے بعد اب نگاہیں حکومت کے ردعمل پر جمی ہیں۔ آیا حکومت پی ٹی آئی اراکین کے استعفے کو قبول کر کے کمیٹیوں کو نئے اراکین سے بھرے گی یا پھر اپوزیشن کے ساتھ کسی مکالمے کی راہ ہموار ہو گی، یہ آنے والے دنوں میں واضح ہو گا۔
میں اپنے لیڈر عمران خان کے حکم کے عین مطابق قومی اسمبلی کی اسٹینڈنگ کمیٹیوں سے استعفیٰ پیش کرتا ہوں۔
میں عمران خان کا سچا سپاہی ہوں اور کوئی بھی عہدہ میرے لیڈر سے زیادہ معنی نہیں رکھتا۔ میری سیاست کا مقصد صرف اور صرف عمران خان کا مشن، پاکستان کی حقیقی آزادی اور عوام کی خدمت ہے۔… pic.twitter.com/tQsWtPHpin
— Malik Aamir Dogar (@AamirDogar155) August 28, 2025