کائنات کا سب سے قدیم بلیک ہول دریافت: جیمز ویب کی ایک اور تاریخ ساز کامیابی
کائنات کے اسرار سے پردہ اٹھانے کے لیے انسانی کوششیں کبھی نہیں رکیں۔ جدید دور میں جیمز ویب ٹیلی اسکوپ (JWST) نے اس میدان میں ایک شاندار سنگِ میل عبور کیا ہے۔ حالیہ تحقیق میں قدیم ترین بلیک ہول کی دریافت نہ صرف سائنسی دنیا کے لیے حیران کن ہے بلکہ یہ ہماری کائناتی تاریخ کو سمجھنے میں ایک نیا در وا کرتی ہے۔
بلیک ہول کی دریافت کیسے ہوئی؟
جیمز ویب ٹیلی اسکوپ نے جس بلیک ہول کا سراغ لگایا ہے، وہ بگ بینگ کے صرف 500 ملین سال بعد وجود میں آیا۔ اس کا مطلب ہے کہ یہ بلیک ہول تقریباً 13.3 ارب سال پرانا ہے — جو کہ اب تک دریافت ہونے والے بلیک ہولز میں سب سے قدیم سمجھا جا رہا ہے۔ یہ دریافت ایک کہکشاں CAPERS-LRD-z9 کے مرکز میں ہوئی، جو "Little Red Dot” قسم کی کہکشاؤں کا حصہ ہے۔
بلیک ہول کا حجم اور طاقت
یہ قدیم ترین بلیک ہول اپنی جسامت میں بھی خاصا بڑا ہے۔ اس کا ماس تقریباً 38 ملین شمسی ماسز کے برابر ہے، یعنی ہماری ملکی وے کہکشاں کے مرکز میں موجود بلیک ہول سے تقریباً دس گنا زیادہ۔ یہ سائز اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ ابتدائی کائنات میں بھی انتہائی طاقتور اور بھاری بلیک ہولز پیدا ہو سکتے تھے۔
دریافت میں اسپیکٹروسکوپی کا کردار
ماہرین نے اس دریافت میں اسپیکٹروسکوپی تکنیک کا استعمال کیا۔ اس طریقے میں ہائیڈروجن کے ارتعاش سے پیدا ہونے والی مخصوص روشنیوں کا تجزیہ کیا گیا۔ ان روشنیوں کی بنیاد پر یہ معلوم ہوا کہ گیس تیز رفتاری سے گردش کر کے بلیک ہول میں جذب ہو رہی ہے، جو اس کے فعال (Active) ہونے کا ثبوت ہے۔ یہی بات اسے دیگر عام بلیک ہولز سے ممتاز بناتی ہے۔
سرخ روشنی اور red shift کا اثر
تصویر میں کہکشاں کی جو سرخی مائل رنگت دیکھی گئی، وہ ممکنہ طور پر بلیک ہول کے ارد گرد موجود گیس و غبار کی کثافت کی وجہ سے ہے۔ یہ مواد بلیک ہول کی کشش کے باعث اس کے گرد گھومتا ہے اور روشنی کو red shift کی طرف دھکیلتا ہے۔ یہی عمل کہکشاں کی قدامت اور فاصلے کا پتہ بھی دیتا ہے۔
ماہرین کا ردِ عمل
ماہرین فلکیات کا کہنا ہے کہ اس دریافت سے ہمیں یہ سمجھنے میں مدد ملے گی کہ کائنات کی ابتدائی مدت میں بڑے بلیک ہولز کس طرح وجود میں آئے۔ ان کا کہنا ہے کہ قدیم ترین بلیک ہول کی دریافت نہ صرف کائناتی ارتقاء پر روشنی ڈالتی ہے بلکہ اس سے بگ بینگ کے فوراً بعد کے حالات کو جانچنے کا بھی موقع ملتا ہے۔
تحقیق کے مستقبل پر اثرات
یہ دریافت ممکنہ طور پر اگلی کئی دہائیوں کے سائنسی تحقیقی کاموں کو نئی سمت دے سکتی ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ اس بلیک ہول جیسے اور کئی پوشیدہ بلیک ہولز کائنات کے دور دراز علاقوں میں موجود ہو سکتے ہیں، جنہیں صرف جدید ترین ٹیکنالوجی جیسے کہ جیمز ویب ٹیلی اسکوپ کے ذریعے ہی دیکھا جا سکتا ہے۔
جیمز ویب ٹیلی اسکوپ کی یہ کامیابی نہ صرف سائنسی دنیا کے لیے ایک اہم سنگِ میل ہے بلکہ عام انسانوں کو بھی کائنات کی وسعت اور اس کے رازوں سے روشناس کراتی ہے۔ قدیم ترین بلیک ہول کی دریافت یہ ثابت کرتی ہے کہ کائنات میں ابھی بہت کچھ دریافت ہونا باقی ہے، اور انسان کی جستجو کبھی ختم نہیں ہوتی۔

Comments 1