قطر پر اسرائیلی حملہ 2025: اسحاق ڈار ہنگامی عرب اسلامی اجلاس کے لیے دوحہ پہنچ گئے
قطر پر اسرائیلی حملہ اور ہنگامی عرب اسلامی سربراہی اجلاس: اسحاق ڈار کی دوحہ آمد اور پاکستان کا سفارتی کردار
مشرق وسطیٰ میں اسرائیلی جارحیت کا دائرہ کار روز بروز وسیع ہوتا جا رہا ہے۔ حالیہ دنوں اسرائیل کی جانب سے قطر کے دارالحکومت دوحہ میں کیا گیا فضائی حملہ بین الاقوامی سطح پر شدید ردعمل کا سبب بنا۔ اس حملے کو نہ صرف خطے کی سلامتی کے لیے خطرہ قرار دیا جا رہا ہے بلکہ اسے مسلم دنیا کی خودمختاری پر حملہ بھی تصور کیا جا رہا ہے۔
ان بدلتے ہوئے علاقائی حالات کے تناظر میں عرب لیگ اور اسلامی تعاون تنظیم (OIC) کی جانب سے ایک ہنگامی عرب-اسلامی سربراہی اجلاس دوحہ میں طلب کیا گیا ہے۔ اجلاس کا مقصد اسرائیلی جارحیت کے خلاف مشترکہ لائحہ عمل کی تیاری، خطے میں امن و سلامتی کا فروغ، اور مسلم ممالک کی یکجہتی کو مضبوط کرنا ہے۔
اسحاق ڈار کی دوحہ آمد: پاکستان کا مؤقف اور فعال سفارت کاری
اس اہم اجلاس میں پاکستان کے نائب وزیر اعظم و وزیر خارجہ اسحاق ڈار کی شرکت نہایت اہمیت کی حامل ہے۔ اسحاق ڈار 14 ستمبر کو دوحہ پہنچے، جہاں ان کا استقبال پاکستان کے سفیر برائے قطر، پاکستان کے مستقل مندوب برائے او آئی سی، اور قطری حکومت کے سینیئر حکام نے کیا۔
پاکستان کی نمائندگی کرتے ہوئے اسحاق ڈار اجلاس میں:
قطر پر اسرائیلی حملے کی شدید مذمت کریں گے،
فلسطینی عوام کے حق میں پاکستان کے تاریخی اور اصولی مؤقف کو دہرائیں گے،
اور مسلم دنیا سے اتحاد و یکجہتی کی اپیل کریں گے۔
اسحاق ڈار کی موجودگی اس امر کی غماز ہے کہ پاکستان نہ صرف علاقائی بلکہ عالمی سطح پر بھی مسلم امہ کے مسائل کو سنجیدگی سے دیکھ رہا ہے۔
قطر پر اسرائیلی حملہ: واقعہ کی تفصیل اور عالمی ردعمل
9 ستمبر 2025 کو اسرائیل نے قطر کے دارالحکومت دوحہ کے مضافاتی علاقے میں ایک فضائی حملہ کیا۔ اس حملے کا ہدف مبینہ طور پر حماس کی قیادت تھی، جو عرصہ دراز سے قطر میں مقیم ہے۔ اگرچہ حملے میں حماس کی اعلیٰ قیادت محفوظ رہی، تاہم چھ افراد شہید ہوئے، جن میں سینئر رہنما خلیل الحیا کا بیٹا اور معاون بھی شامل تھے۔
یہ حملہ:
بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے،
ایک خودمختار ملک کی سالمیت پر حملہ ہے،
اور خطے میں جاری کشیدگی کو مزید بڑھانے کا باعث بن سکتا ہے۔
قطر نے اس اقدام کو "ناقابلِ قبول” قرار دیتے ہوئے عالمی برادری سے فوری نوٹس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔
ہنگامی عرب اسلامی اجلاس کی اہمیت: اتحاد یا علامتی مظاہرہ؟
دوحہ میں منعقد ہونے والا یہ ہنگامی اجلاس صرف ایک رسمی کارروائی نہیں، بلکہ اسے خطے کے مستقبل کا فیصلہ کن موڑ قرار دیا جا رہا ہے۔ اجلاس میں تمام اہم مسلم ممالک کے وزرائے خارجہ، سربراہانِ مملکت، اور سفارت کار شریک ہوں گے۔
اہم نکات جن پر بحث متوقع ہے:
قطر پر اسرائیلی حملے کے بعد پیدا ہونے والی علاقائی صورتحال،
اسرائیل کی مسلسل فلسطینی علاقوں میں جارحیت،
او آئی سی کا مؤثر کردار،
اور مسلم ممالک کی باہمی دفاعی و سفارتی حکمت عملی۔
یہ اجلاس اس بات کا امتحان بھی ہے کہ کیا مسلم دنیا واقعی اسرائیلی جارحیت کے خلاف متحد ہو سکتی ہے، یا یہ صرف ایک اور علامتی اجتماع ثابت ہوگا۔
پاکستان کا تاریخی مؤقف: فلسطین کے حق میں غیر متزلزل حمایت
پاکستان نے ہمیشہ فلسطینی عوام کے حقِ خود ارادیت، آزاد ریاست، اور اسرائیلی جارحیت کے خلاف سخت مؤقف اختیار کیا ہے۔ قائدِاعظم محمد علی جناح کے دور سے لے کر آج تک پاکستان کی ہر حکومت نے فلسطینیوں کے ساتھ یکجہتی کا مظاہرہ کیا ہے۔
اسحاق ڈار کے اس اجلاس میں شرکت کا مقصد صرف مذمت کرنا نہیں بلکہ:
عالمی برادری کو ایک مضبوط پیغام دینا ہے کہ مسلم دنیا بیدار ہے،
اقوامِ متحدہ اور دیگر بین الاقوامی اداروں پر دباؤ ڈالنا ہے،
اور اسرائیلی اقدامات کو روکنے کے لیے اجتماعی سفارتی، معاشی اور سیاسی اقدامات پر زور دینا ہے۔
پاکستان اور قطر: دوطرفہ تعلقات کی نئی جہت
اس اجلاس کے تناظر میں پاکستان اور قطر کے تعلقات بھی مزید مضبوط ہو رہے ہیں۔ دونوں ممالک:
معاشی، دفاعی اور توانائی کے شعبوں میں قریبی تعاون رکھتے ہیں،
مشترکہ طور پر اسلامی دنیا کے مسائل پر ایک جیسا نقطہ نظر رکھتے ہیں،
اور عالمی سطح پر سفارتی شراکت داری کو فروغ دے رہے ہیں۔
اسحاق ڈار کی دوحہ آمد اس بات کا اظہار ہے کہ پاکستان قطر کے ساتھ کھڑا ہے، اور دونوں ممالک علاقائی امن و استحکام کے لیے متحد ہیں۔
متوقع نتائج: قرارداد، سفارتی دباؤ یا عملی اقدامات؟
ہنگامی اجلاس کے اختتام پر درج ذیل اقدامات متوقع ہیں:
متفقہ قرارداد کی منظوری جس میں قطر پر حملے کی مذمت اور اسرائیل پر عالمی دباؤ ڈالنے کی اپیل شامل ہوگی۔
او آئی سی کا مشترکہ بیان جس میں فلسطین کے مسئلے پر دوٹوک موقف اپنایا جائے گا۔
سفارتی دباؤ کی مہم جس کے تحت عالمی طاقتوں (بالخصوص امریکہ، یورپی یونین) سے اسرائیل پر پابندیوں کا مطالبہ کیا جا سکتا ہے۔
معاشی بائیکاٹ یا تجارتی اقدامات جیسے اسرائیلی مصنوعات یا کمپنیوں کا بائیکاٹ۔
تاہم، یہ سب اسی وقت ممکن ہے جب تمام مسلم ممالک قول و فعل میں یکساں ہوں۔
چیلنجز اور حقیقت پسندی: مسلم اتحاد کی راہ میں رکاوٹیں
اگرچہ مسلم دنیا میں اسرائیل کے خلاف سخت جذبات پائے جاتے ہیں، مگر مختلف ممالک کے سیاسی و معاشی مفادات ایک متحدہ مؤقف اختیار کرنے میں رکاوٹ بنتے ہیں۔ کچھ مسلم ممالک اسرائیل کے ساتھ سفارتی و تجارتی تعلقات رکھتے ہیں، جو اتحاد کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہیں۔
پاکستان جیسے ملک کے لیے یہ ایک موقع ہے کہ وہ نہ صرف اصولی مؤقف پر قائم رہے بلکہ مسلم دنیا کو قائل کرنے کی بھی کوشش کرے کہ مسئلہ فلسطین اور اب قطر پر حملے جیسے اقدامات عالمی ضمیر کو جھنجھوڑنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔
دوحہ اجلاس—پاکستان کی قیادت میں مسلم اتحاد کا امکان؟
اسحاق ڈار کی دوحہ آمد اور اجلاس میں شرکت صرف ایک سفارتی قدم نہیں بلکہ پاکستان کے اصولی مؤقف کا عملی مظاہرہ ہے۔ اگر مسلم دنیا اس موقع پر متحد ہو جائے، تو یہ صرف قطر یا فلسطین کے لیے نہیں بلکہ پوری اسلامی دنیا کے لیے ایک اہم پیش رفت ہو سکتی ہے۔
پاکستان کا کردار اس وقت کلیدی ہو سکتا ہے، خصوصاً جب وہ ثالثی، سفارتکاری اور عالمی فورمز پر مؤثر آواز بننے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
دنیا دیکھ رہی ہے کہ مسلم دنیا کس حد تک اسرائیلی جارحیت کا مؤثر جواب دیتی ہے۔ آیا یہ اجلاس ایک تاریخی موڑ ثابت ہوگا یا محض ایک رسمی کارروائی — یہ وقت ہی بتائے گا، لیکن پاکستان نے پہلا قدم مضبوطی سے اٹھا لیا ہے۔

Comments 1