قطر کے وزیراعظم کا اسرائیل پر شدید الزام: یرغمالیوں کی رہائی ناممکن
قطری وزیراعظم کا دوٹوک مؤقف: "اسرائیلی حملے نے یرغمالیوں کی رہائی کی امید ختم کر دی”
قطر کے وزیراعظم اور وزیر خارجہ شیخ محمد بن عبدالرحمان الثانی نے حالیہ اسرائیلی فضائی حملے پر شدید ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس حملے نے حماس کے زیر قبضہ یرغمالیوں کی رہائی کی تمام امیدیں ختم کر دی ہیں۔ انہوں نے امریکہ کے ایک معروف ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے واضح کیا کہ اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو نے بین الاقوامی قوانین کی کھلم کھلا خلاف ورزی کی ہے اور اب وقت آ گیا ہے کہ انہیں انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔
شیخ محمد کا یہ بیان ایسے وقت سامنے آیا ہے جب 9 ستمبر کو اسرائیل نے قطر کے دارالحکومت دوحہ پر فضائی حملہ کیا، جس کا ہدف فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس کی قیادت تھی۔ اس حملے میں اگرچہ حماس کی اعلیٰ قیادت محفوظ رہی، تاہم خلیل الحیہ کے بیٹے، دفتر کے ڈائریکٹر اور دیگر 6 افراد شہید ہو گئے۔ اس کے علاوہ قطر کی وزارت داخلہ نے تصدیق کی ہے کہ ایک سکیورٹی افسر بھی شہید اور دوسرا زخمی ہوا۔
حملے کا پس منظر – ایک نئی اشتعال انگیزی
اسرائیل کی جانب سے قطر پر یہ حملہ کئی حوالوں سے غیر معمولی ہے:
قطر خلیجی خطے کا ایک غیر جانب دار ثالث سمجھا جاتا ہے۔
دوحہ کو کئی عرصے سے فلسطین اور مغرب کے درمیان مذاکرات کا مرکز سمجھا جاتا رہا ہے۔
قطر وہ واحد عرب ملک ہے جو غزہ کے انسانی بحران میں براہ راست مالی و انسانی مدد فراہم کرتا ہے۔
قطر کی میزبانی میں حماس اور دیگر تنظیمیں سفارتی اور سیاسی مذاکرات کے لیے موجود رہی ہیں۔
ایسے میں اسرائیل کی طرف سے قطر پر حملہ ایک براہِ راست پیغام ہے، جسے ماہرین جارحیت، اشتعال انگیزی اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی قرار دے رہے ہیں۔
قطری وزیراعظم کا مؤقف – "اب یرغمالیوں کی رہائی ناممکن ہے”
شیخ محمد بن عبدالرحمان الثانی نے اپنے انٹرویو میں واضح انداز میں کہا:
"اسرائیلی حملے نے نہ صرف قطر کی خودمختاری کو مجروح کیا بلکہ یرغمالیوں کی رہائی کی امید کو مکمل طور پر دفن کر دیا ہے۔ ہم کئی ہفتوں سے سفارتی ذرائع سے بات چیت میں مصروف تھے، لیکن اس حملے کے بعد یہ عمل تقریباً ناممکن ہو چکا ہے۔”
انہوں نے کہا کہ:
اسرائیل دانستہ طور پر امن مذاکرات کو سبوتاژ کر رہا ہے۔
قطر اور دیگر ثالث ممالک کی کوششوں کو سبوتاژ کرنا بین الاقوامی امن کے خلاف عمل ہے۔
"نیتن یاہو کو بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی پر جوابدہ بنایا جانا چاہیے۔”
یرغمالیوں کا مسئلہ – انسانی پہلو
اکتوبر 2023 میں شروع ہونے والی غزہ جنگ کے دوران حماس نے درجنوں اسرائیلی شہریوں کو یرغمال بنایا تھا۔ بعد ازاں قطر، مصر، اور دیگر ممالک کی ثالثی سے چند جزوی تبادلے عمل میں آئے۔
تاہم حالیہ ہفتوں میں یرغمالیوں کی رہائی کے سلسلے میں پیش رفت سست ہو چکی تھی۔ قطر ان چند ممالک میں شامل تھا جو نرم ڈپلومیسی اور انسانی بنیادوں پر مذاکرات جاری رکھے ہوئے تھا۔
شیخ محمد کا کہنا ہے کہ:
"ہم نے نہ صرف انسانی ہمدردی بلکہ دیرپا امن کے لیے مذاکرات کیے۔ لیکن اب جب کہ اسرائیل نے براہِ راست قطر پر حملہ کر کے ہماری کوششوں کو تباہ کر دیا ہے، اس کے بعد ہم کوئی گارنٹی نہیں دے سکتے کہ یرغمالیوں کی رہائی ممکن ہو گی۔”
بین الاقوامی ردعمل – خاموشی یا مجبوری؟
اسرائیل کے قطر پر حملے پر بیشتر مغربی ممالک کی جانب سے خاموشی کا عالم ہے، جو اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ سیاسی مصلحت بعض اوقات قانون اور اخلاقیات پر غالب آ جاتی ہے۔
تاہم انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس حملے کو:
خطرناک نظیر
خلیج میں امن کی پامالی
ثالثی کی ناکامی کی کوشش
اور قطر کی خودمختاری پر حملہ
قرار دیا ہے۔
اقوامِ متحدہ کا ردعمل:
اب تک اقوامِ متحدہ کی جانب سے کوئی واضح موقف سامنے نہیں آیا، تاہم بیک ڈور ڈپلومیسی کی اطلاعات گردش کر رہی ہیں۔
قطر کا عالمی کردار – ثالث سے ہدف تک
قطر نے گزشتہ کئی برسوں میں ایک فعال ثالث کا کردار ادا کیا ہے۔ افغانستان میں طالبان اور امریکہ کے مذاکرات سے لے کر فلسطینی قیدیوں کی رہائی تک، قطر نے خود کو ایک غیر جانب دار اور مؤثر ثالث کے طور پر منوایا ہے۔
تاہم اس بار اسرائیل نے قطر کو:
سیاسی ہدف
سفارتی دباؤ کا مرکز
اور خطے میں طاقت کے توازن کو چیلنج کرنے والا فریق بنا دیا ہے۔
یہ حملہ نہ صرف قطر بلکہ تمام خلیجی ریاستوں کے لیے ایک وارننگ کے طور پر دیکھا جا رہا ہے کہ اگر کوئی فلسطین کی حمایت کرے گا، تو وہ اسرائیلی غضب کا نشانہ بنے گا۔
حماس کا ردعمل – قربانی مگر استقامت
حماس کے ترجمان نے حملے کے بعد بیان دیا کہ:
"یہ حملہ ہماری قیادت کو ختم کرنے کی کوشش تھی، لیکن ہماری مرکزی قیادت محفوظ رہی۔ ہم شہداء کے خون کو رائیگاں نہیں جانے دیں گے۔”
انہوں نے اسرائیل کو خبردار کیا کہ:
"قطر پر حملہ بین الاقوامی سفارتکاری کے چہرے پر طمانچہ ہے۔”
"ہماری تحریک اب اور مضبوط ہو گی۔”
خطے میں کشیدگی – کیا نیا محاذ کھل گیا؟
یہ حملہ خطے میں کئی نئے خطرات کو جنم دے سکتا ہے:
قطر اور اسرائیل کے تعلقات میں مکمل انقطاع
خلیجی ممالک میں اسرائیلی سفارتخانوں پر دباؤ
قطر کا ایران، ترکی اور دیگر علاقائی اتحادیوں کی طرف جھکاؤ
عالمی ثالثی کا عمل متاثر
ماہرین کا کہنا ہے کہ:
"اگر اسرائیل کو اس حملے پر کوئی قیمت ادا نہیں کرنی پڑی، تو مستقبل میں دوسرے ثالث ممالک بھی پیچھے ہٹنے پر مجبور ہوں گے۔”
کیا اسرائیل کو جوابدہ ٹھہرایا جا سکے گا؟
قطر نے اب تک اقوامِ متحدہ میں رسمی شکایت دائر نہیں کی، لیکن ذرائع کے مطابق وہ آئی سی جے (بین الاقوامی عدالت انصاف) اور یو این سیکیورٹی کونسل سے رجوع کرنے پر غور کر رہا ہے۔
قانونی امکانات:
خودمختاری کی خلاف ورزی
سیویلین ہلاکتیں
بین الاقوامی ثالثی پر حملہ
سفارتی اصولوں کی پامالی
اگر قطر بین الاقوامی فورمز پر یہ کیس لے کر جاتا ہے تو یہ عرب دنیا میں اسرائیل کے خلاف پہلا بڑا قانونی چیلنج ہو سکتا ہے۔
امن پر حملہ، خاموشی پر سوال
قطری وزیراعظم کا بیان ایک انتہائی سنگین سفارتی انتباہ ہے۔ ان کا کہنا کہ "یرغمالیوں کی رہائی کی تمام امیدیں ختم ہو چکی ہیں” اس بات کا ثبوت ہے کہ اسرائیل کی جارحیت صرف غزہ، فلسطین یا لبنان تک محدود نہیں رہی بلکہ اب وہ ثالثی کرنے والے ممالک کو بھی جنگی فریق سمجھ رہا ہے۔
یہ حملہ نہ صرف قطر کے وقار، بلکہ بین الاقوامی سفارتکاری، ثالثی کی اخلاقیات، اور انسانی حقوق کی بنیادوں پر بھی حملہ ہے۔ اگر عالمی برادری نے اب بھی خاموشی اختیار کی، تو دنیا کا سفارتی نظام مکمل طور پر تباہ ہو سکتا ہے۔
