راولپنڈی میں چینی اسمگلنگ ناکام، 700 بوریاں برآمد – فوکس: چینی اسمگلنگ
راولپنڈی کے علاقے تھانہ روات کی حدود میں پولیس نے چینی اسمگلنگ کی ایک بڑی کوشش ناکام بناتے ہوئے 10 ویلر گاڑی سے 700 بوریاں چینی برآمد کر لیں۔ اس کارروائی کے دوران پولیس کو نہ صرف مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا بلکہ ملزمان کی طرف سے اہلکار پر حملے اور فرار کی کوشش نے صورتحال کو مزید سنجیدہ بنا دیا۔
یہ واقعہ چک بیلی موڑ کے قریب اس وقت پیش آیا جب پولیس کو خفیہ اطلاع ملی کہ ایک بڑی مقدار میں چینی غیر قانونی طریقے سے منتقل کی جا رہی ہے۔ پولیس کی فوری کارروائی نے نہ صرف سرکاری اثاثے کو بچا لیا بلکہ چینی کے مصنوعی بحران کو بڑھنے سے بھی روک دیا۔
چینی کی ذخیرہ اندوزی اور اسمگلنگ: ایک سنگین قومی مسئلہ
پاکستان میں مہنگائی اور اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں مسلسل اضافے کے پس منظر میں چینی کی ذخیرہ اندوزی اور اسمگلنگ ایک نہایت سنگین مسئلہ بن چکی ہے۔ حکومتی اقدامات کے باوجود مختلف مافیاز منظم طریقے سے چینی کو ذخیرہ یا اسمگل کرکے مارکیٹ میں مصنوعی قلت پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
حالیہ کارروائی اس بات کا ثبوت ہے کہ ذخیرہ اندوز اور اسمگلر اب کھلے عام بڑے پیمانے پر اشیاء کو غیر قانونی طریقوں سے ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کر رہے ہیں، جس سے نہ صرف عوام کو مہنگی چینی خریدنی پڑتی ہے بلکہ حکومت کی ساکھ بھی متاثر ہوتی ہے۔
کارروائی کی تفصیلات: 10 ویلر گاڑی سے 700 بوریاں برآمد
راولپنڈی کے تھانہ روات پولیس نے چک بیلی موڑ پر ایک مشکوک 10 ویلر گاڑی کو روکا۔ تلاشی لینے پر معلوم ہوا کہ گاڑی میں بڑی مقدار میں چینی موجود ہے۔ جب گاڑی میں موجود افراد سے قانونی دستاویزات یا اجازت نامہ طلب کیا گیا تو وہ کوئی تسلی بخش جواب نہ دے سکے۔
گاڑی میں موجود ڈرائیور رفاقت، جلیل شاہ اور ہیلپر محسن کو فوری طور پر حراست میں لیا گیا اور ان سے ابتدائی تفتیش شروع کر دی گئی ہے۔ ان افراد کے قبضے سے کوئی بھی سرکاری یا متعلقہ ادارے کا اجازت نامہ برآمد نہ ہو سکا، جس سے ثابت ہوا کہ یہ چینی غیر قانونی طریقے سے منتقل کی جا رہی تھی۔
پولیس پر حملہ: ویگو ڈالے میں آئے مسلح افراد کی مزاحمت
کارروائی کے دوران صورتحال اس وقت کشیدہ ہو گئی جب ایک ویگو ڈالے میں سوار تین مسلح افراد موقع پر پہنچے اور پولیس اہلکاروں کے ساتھ بدتمیزی اور ہاتھا پائی کی کوشش کی۔ ان افراد نے نہ صرف پولیس کو روکنے کی کوشش کی بلکہ پولیس اہلکار عمیر محمود کی وردی بھی پھاڑ دی۔
یہ حملہ مکمل طور پر پولیس کی رٹ چیلنج کرنے کے مترادف تھا، اور اس بات کا عکاس تھا کہ چینی اسمگلنگ میں ملوث عناصر کس قدر منظم اور خطرناک ہو چکے ہیں۔ ان مسلح افراد نے زبردستی اپنے ساتھیوں کو چھڑایا اور فرار ہو گئے، جس کے بعد ان کی گرفتاری کے لیے علاقے میں سرچ آپریشن شروع کر دیا گیا ہے۔
ابتدائی تفتیش اور قانونی کارروائی
پولیس نے گرفتار افراد سے ابتدائی پوچھ گچھ شروع کر دی ہے تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ یہ چینی کہاں سے لائی گئی، کہاں لے جائی جا رہی تھی، اور اس نیٹ ورک میں کون سے دیگر عناصر شامل ہیں۔ ذرائع کے مطابق پولیس نے گاڑی کو تحویل میں لے کر تھانے منتقل کر دیا ہے جبکہ مفرور افراد کے خلاف مقدمہ درج کر کے تلاش جاری ہے۔
ایف آئی آر میں حملہ، سرکاری کام میں مداخلت، مزاحمت، اور اسمگلنگ کی دفعات شامل کی گئی ہیں۔
پنجاب حکومت اور ضلعی انتظامیہ کا سخت مؤقف
پنجاب حکومت نے حالیہ دنوں میں چینی کی قیمتوں میں اضافہ اور مصنوعی قلت پر سخت نوٹس لیا ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کی ہدایت پر مارکیٹ مافیا کے خلاف آپریشن تیز کر دیا گیا ہے۔ راولپنڈی میں ہونے والی یہ کارروائی اسی مہم کا حصہ ہے۔
ضلعی انتظامیہ نے بھی واضح کیا ہے کہ اسمگلنگ اور ذخیرہ اندوزی کسی صورت برداشت نہیں کی جائے گی۔ جو افراد عوام کو مشکلات میں ڈالنے کے لیے اس طرح کی غیر قانونی حرکتوں میں ملوث ہیں، ان کے خلاف بلا امتیاز کارروائی کی جائے گی۔
عوام کا ردعمل اور سوشل میڈیا پر تعریف
سوشل میڈیا پر پولیس کی اس کارروائی کو خوب سراہا جا رہا ہے۔ شہریوں کا کہنا ہے کہ اگر ایسی کارروائیاں تسلسل سے کی جاتی رہیں تو چینی مافیا اور دیگر ذخیرہ اندوزوں کو لگام دی جا سکتی ہے۔
#شکریہ_پولیس، #چینی_مافیا_ختم_کرو اور #راولپنڈی_کارروائی جیسے ہیش ٹیگز ٹوئٹر پر ٹرینڈ کر رہے ہیں، جو عوامی شعور میں اضافے اور پولیس پر اعتماد کی عکاسی کرتے ہیں۔
چینی بحران کا مستقل حل کیا؟
ماہرین کا کہنا ہے کہ چینی کی اسمگلنگ اور ذخیرہ اندوزی کے خلاف صرف وقتی کارروائیوں سے مسئلہ حل نہیں ہو گا۔ حکومت کو ڈیجیٹل ٹریکنگ، جدید انٹیلی جنس، اسٹاک رجسٹریشن، اور سخت سزاؤں کے نظام کو نافذ کرنا ہو گا تاکہ اس مافیا کی جڑیں کاٹی جا سکیں۔
راولپنڈی کارروائی ایک مثال
راولپنڈی کی اس کامیاب کارروائی نے ثابت کر دیا کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے اگر سنجیدگی سے کام کریں تو مافیا کی کمر توڑی جا سکتی ہے۔ یہ واقعہ دیگر اضلاع کے لیے ایک مثال ہے اور امید کی جا رہی ہے کہ ایسی کارروائیاں تسلسل کے ساتھ جاری رکھی جائیں گی تاکہ عوام کو ریلیف مل سکے۔

