سیلاب سے متاثرہ گاؤں شائی درہ | سیلاب کے نقصانات، امدادی کارروائیاں اور حکومتی اقدامات
پاکستان میں سیلاب سے تباہی کا سلسلہ جاری: شائی درہ، غذر اور گلگت بلتستان شدید متاثر
پاکستان ایک بار پھر قدرتی آفات کی زد میں ہے۔ بارشوں، گلیشیئرز کے پھٹنے اور بھارت کی جانب سے پانی چھوڑے جانے کے باعث ملک کے کئی حصے شدید سیلابی صورت حال کا سامنا کر رہے ہیں۔ ہزاروں خاندان بے گھر ہو چکے ہیں، سینکڑوں جانیں ضائع ہو چکی ہیں، جبکہ بنیادی انفراسٹرکچر تباہی کے دہانے پر ہے۔ ان حالات میں متاثرہ علاقوں کی صورتحال قابلِ رحم اور حکومتی اقدامات سخت امتحان میں ہیں۔
شائی درہ: گاؤں صفحۂ ہستی سے مٹ گیا
سیلاب کے شدید بہاؤ کی زد میں آ کر گاؤں شائی درہ مکمل طور پر تباہ ہو چکا ہے۔ مکانات، مارکیٹیں، اور لڑکیوں کا واحد پرائمری اسکول بھی پانی کی نذر ہو چکا ہے۔ یہ اسکول نہ صرف تعلیم کا واحد ذریعہ تھا بلکہ بچیوں کے خوابوں کی واحد امید بھی تھا، جو اب مٹی کے ڈھیر میں تبدیل ہو چکا ہے۔
رابطہ سڑک مکمل طور پر تباہ ہو چکی ہے، جس کے باعث نہ صرف شائی درہ بلکہ اس کے گرد و نواح کے دیہات بھی امدادی کارروائیوں سے محروم ہو چکے ہیں۔ دس روز گزرنے کے باوجود زاہد آباد کے کئی علاقے کیچڑ اور ملبے سے بھرے ہوئے ہیں، جہاں حکومتی ادارے اور مقامی رضاکار صفائی میں مصروف ہیں، مگر وسائل کی کمی اور سڑکوں کی تباہی کی وجہ سے بہت سست روی کا شکار ہیں۔
سیلاب زدہ مکین: بے سروسامانی اور بے بسی
شائی درہ اور گرد و نواح کے لوگ کھلے آسمان تلے بے یار و مددگار بیٹھے ہیں۔ ان کے پاس:
- نہ سر چھپانے کے لیے چھت ہے
- نہ کھانے کے لیے خوراک
- نہ علاج معالجے کے لیے طبی سہولیات
سیلاب زدگان کو فوری امداد، خیمے، پانی، ادویات اور صفائی کے سامان کی ضرورت ہے، مگر سڑکیں بند ہونے اور امدادی ٹیموں کے محدود وسائل کے باعث یہ سہولتیں ان تک نہیں پہنچ سکیں۔
غذر اور گلگت بلتستان: رابطے ٹوٹ چکے ہیں
دوسری جانب گلگت بلتستان کے ضلع غذر میں صورتحال مزید سنگین ہے۔ چٹورکھنڈ اور گاؤں دائن کو ملانے والا پل مکمل طور پر گر چکا ہے، جس کے نتیجے میں مقامی آبادی کا گاہکوچ اور گلگت سے رابطہ دو ہفتوں سے منقطع ہے۔
یہ پل نہ صرف آمد و رفت کا ذریعہ تھا بلکہ علاقائی معیشت اور روزمرہ زندگی کا اہم جزو بھی تھا۔ اب لوگ:
- طبی سہولیات سے محروم ہو چکے ہیں
- ضروری اشیائے خور و نوش نہیں پہنچ پا رہیں
- تعلیم اور دیگر معمولاتِ زندگی معطل ہو چکے ہیں
تالی داس راوشن میں گلیشیئر کا قہر
غذر میں تالی داس، راوشن اور دیگر بالائی علاقوں میں گلیشیئر پھٹنے کے باعث تباہی کی نئی لہر آئی ہے۔ یہ علاقے پہلے ہی دشوار گزار راستوں کی وجہ سے امدادی کارروائیوں سے محروم تھے، اب گلگت شندور روڈ بند ہونے کے باعث ٹریفک بھی معطل ہے، اور متاثرین کا بیرونی دنیا سے رابطہ بھی مکمل ختم ہو چکا ہے۔
یہ انسانی بحران روز بہ روز گہرا ہوتا جا رہا ہے۔ حکومتی ادارے اور مقامی رضاکار محدود وسائل میں بھرپور کوشش کر رہے ہیں، لیکن زمینی حقائق امداد کی فوری فراہمی کی راہ میں بڑی رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔
ترجمان گلگت بلتستان حکومت کا موقف
اس سنگین صورتِ حال پر جی بی حکومت کے ترجمان کا کہنا ہے کہ:
"تالی داس گاؤں کے مکینوں کی مستقل آباد کاری کا واحد حل متبادل گاؤں کا قیام ہے۔”
یہ بیان متاثرین کے لیے ایک امید کی کرن ہو سکتا ہے، بشرطیکہ اس پر جلد عملی اقدامات کیے جائیں۔ ترجمان نے یہ بھی کہا کہ دائن-چٹورکھنڈ آر سی سی پل کی ازسرنو تعمیر کے لیے وفاقی حکومت کے تعاون کی ضرورت ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ یہ معاملہ اب صوبائی سے بڑھ کر وفاقی سطح پر توجہ کا طالب ہے۔
انسانی جانوں کا نقصان
مجموعی طور پر ملک بھر میں حالیہ بارشوں اور سیلاب کے نتیجے میں جان بحق افراد کی تعداد 800 سے تجاوز کر چکی ہے۔ یہ صرف اعداد و شمار نہیں، بلکہ ہر عدد ایک خاندان کا چراغ ہے جو بجھ چکا ہے، ایک کہانی ہے جو ادھوری رہ گئی ہے۔
بھارت کا کردار: ستلج میں پانی چھوڑنے کی اطلاع
مزید خطرے کی گھنٹی اس وقت بجی جب بھارت نے دریائے ستلج میں پانی چھوڑنے کی پیشگی اطلاع دی۔ یہ اطلاع ایک طرف تو مثبت قدم ہے، لیکن اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ آنے والے دنوں میں ستلج کے اطراف کے علاقوں میں مزید سیلابی کیفیت پیدا ہو سکتی ہے۔
پاکستان کو اب نہ صرف داخلی صورتحال پر قابو پانا ہوگا، بلکہ خارجی عوامل کو بھی ذہن میں رکھ کر پیشگی حکمت عملی تیار کرنا ہوگی۔
چیلنجز اور ضروری اقدامات
موجودہ صورتحال کئی چیلنجز کا تقاضا کر رہی ہے:
متاثرہ علاقوں کا فوری فضائی جائزہ لیا جائے تاکہ امداد صحیح مقام پر پہنچ سکے۔
فوری طور پر پلوں اور سڑکوں کی عارضی بحالی کے لیے فوج اور انجینئرنگ کور کی مدد حاصل کی جائے۔
سیلاب سے بے گھر افراد کے لیے عارضی کیمپس قائم کیے جائیں جہاں خوراک، ادویات، صفائی، تعلیم اور نفسیاتی مدد فراہم کی جائے۔
متاثرہ بچوں، خواتین اور بزرگوں کی خصوصی نگہداشت کی جائے۔
وفاقی اور صوبائی سطح پر ہم آہنگی سے ایک مربوط لائحہ عمل تشکیل دیا جائے۔
مستقبل کا لائحہ عمل: منصوبہ بندی یا مجبوری؟
موجودہ آفت ایک مرتبہ پھر یہ سوال اٹھاتی ہے کہ:
کیا ہم قدرتی آفات کے لیے تیار ہیں؟
کیا ہمارے پاس پیشگی الرٹ سسٹم موجود ہے؟
کیا ہم انفراسٹرکچر کو موسمیاتی تبدیلیوں سے ہم آہنگ بنا رہے ہیں؟
اگر جواب "نہیں” ہے تو ہمیں فوری طور پر اپنی ترجیحات بدلنے کی ضرورت ہے۔
شائی درہ، غذر، تالی داس، راوشن اور دیگر متاثرہ علاقوں میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ صرف "قدرتی آفت” نہیں بلکہ ایک اجتماعی غفلت، کمزوری اور ناکامی کی علامت بھی ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ حکومت، ادارے اور عوام مل کر اس بحران سے نمٹنے کے لیے متحد ہوں۔
یہ صرف متاثرین کا مسئلہ نہیں، یہ ہم سب کا مسئلہ ہے۔ کیونکہ آج شائی درہ ہے، کل کوئی اور ہوگا۔ قدرتی آفات کو روکا نہیں جا سکتا، مگر ان کے اثرات کو کم ضرور کیا جا سکتا ہے — اگر ارادہ، نیت اور عمل موجود ہو۔


Comments 1