سوشل میڈیا کی مشہور 16 سالہ ٹک ٹاکر ثناء یوسف کے قتل کا معاملہ ایک نئے مرحلے میں داخل ہوگیا ہے
ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ اسلام آباد میں ہونے والی سماعت کے دوران پراسیکیوشن نے اس اہم کیس کا چالان عدالت میں پیش کردیا ہے۔ چالان کی اسکروٹنی ٹیم نے ایک ماہ سے زائد عرصہ اس پر تفصیلی جائزہ لیا اور مکمل ریکارڈ مرتب کرنے کے بعد اسے عدالت کو بھیج دیا گیا۔
چالان کی اسکروٹنی مکمل، عدالت کو جمع
پراسیکیوشن کے مطابق ٹک ٹاکر ثناء یوسف قتل کیس میں چالان کی اسکروٹنی مکمل ہونے پر اسے باقاعدہ عدالت میں پیش کیا گیا۔ چالان میں یہ بات واضح کی گئی ہے کہ ملزم عمر حیات ہی ثناء یوسف کا اصل قاتل ہے، جس نے اپنے جرم کا اعتراف مجسٹریٹ کے سامنے بھی کیا۔ پولیس کی جانب سے پیش کردہ چالان میں بتایا گیا ہے کہ ملزم نے انتہائی منصوبہ بندی کے ساتھ یہ قدم اٹھایا اور اپنی مجرمانہ نیت کا عملی مظاہرہ کیا۔
31 گواہان شامل
پراسیکیوشن کی جانب سے جمع کرائے گئے چالان میں 31 گواہان کو شامل کیا گیا ہے۔ ان گواہان میں ثناء یوسف کی قریبی فیملی ممبرز، مقتولہ کا معائنہ کرنے والے ڈاکٹر، واقعے کے وقت موقع پر موجود پولیس اہلکار اور تفتیشی افسران شامل ہیں۔ پراسیکیوشن کے مطابق یہ تمام گواہان مقدمہ کے دوران عدالت میں پیش ہوں گے اور وہ شواہد پیش کریں گے جن کی بنیاد پر عدالت فیصلہ دے سکے گی۔
عدالت کے ریمارکس اور ٹرائل کا آغاز
سماعت کے دوران عدالت نے ریمارکس دیے کہ موسم گرما کی تعطیلات کے اختتام پر کیس کا باقاعدہ ٹرائل شروع کیا جائے گا۔ عدالت نے مزید کہا کہ چونکہ یہ کیس نوعمر لڑکی کے بہیمانہ قتل کا ہے، اس لیے اسے جلد از جلد نمٹانے کی ضرورت ہے تاکہ انصاف کے تقاضے پورے ہوں۔
قتل کی وجوہات
یاد رہے کہ ٹک ٹاکر ثناء یوسف قتل کیس نے پورے ملک کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا۔ پولیس کے مطابق ملزم عمر حیات نے ثناء یوسف کو اس وقت قتل کیا جب اس نے دوستی کرنے سے صاف انکار کردیا۔ ملزم مقتولہ کے گھر کے اندر داخل ہوا اور فائرنگ کرکے اسے موقع پر ہی قتل کردیا۔ یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب ثناء یوسف اپنی والدہ اور بہن کے ساتھ گھر میں موجود تھیں۔ اچانک گولیوں کی آواز سن کر اہل علاقہ بھی جمع ہوگئے مگر تب تک ثناء یوسف زندگی کی بازی ہار چکی تھی۔
ملزم کا اعترافِ جرم
چالان کے مطابق ملزم عمر حیات نے نہ صرف پولیس کے سامنے بلکہ مجسٹریٹ کے روبرو بھی اعتراف کیا کہ اس نے ہی ثناء یوسف کو گولیاں مار کر قتل کیا۔ اس نے بیان میں کہا کہ ثناء نے اس کی محبت قبول کرنے سے انکار کیا جس پر اس نے انتقامی کارروائی کرتے ہوئے اسے جان سے مارنے کا فیصلہ کیا۔ پولیس نے عدالت کو بتایا کہ ملزم کا اعتراف جرم اور فرانزک شواہد کیس کے سب سے مضبوط پہلو ہیں۔
عوامی ردعمل اور سوشل میڈیا پر ہنگامہ
ثناء یوسف کے قتل نے پورے ملک میں شدید غم و غصہ پیدا کیا۔ ٹک ٹاکر ثناء یوسف قتل کیس نہ صرف قومی میڈیا بلکہ بین الاقوامی میڈیا پر بھی نمایاں ہوا۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر "Justice for Sana” اور "We Want Justice” جیسے ہیش ٹیگز ٹرینڈ کرتے رہے۔ ہزاروں صارفین نے اس بہیمانہ واقعے کی مذمت کی اور مطالبہ کیا کہ ملزم کو سخت ترین سزا دی جائے تاکہ مستقبل میں کسی اور کو اس طرح کی جرات نہ ہو۔
انسانی حقوق کی تنظیموں کا موقف
پاکستان کی کئی انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس واقعے پر سخت تشویش ظاہر کی۔ ان تنظیموں کا کہنا ہے کہ خواتین اور بالخصوص نوجوان لڑکیوں کے لیے ملک میں محفوظ ماحول فراہم کرنا ریاست کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ ٹک ٹاکر ثناء یوسف قتل کیس اس بات کا ثبوت ہے کہ معاشرے میں خواتین کو ہراساں کرنے اور ان پر تشدد کے واقعات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔
فیملی کا مؤقف
ثناء یوسف کے والدین اور اہل خانہ نے عدالت سے انصاف کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ ان کی بیٹی کا قتل کسی ذاتی دشمنی یا مالی تنازع کی وجہ سے نہیں بلکہ صرف اس لیے کیا گیا کہ اس نے ایک شخص کی ناجائز خواہش کو رد کر دیا۔ ان کے مطابق اگر اس کیس کو سنجیدگی سے نہ لیا گیا تو مزید کئی بیٹیوں کی زندگیاں خطرے میں پڑ سکتی ہیں۔

قانونی ماہرین کی رائے
قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر ملزم کا اعتراف جرم اور دیگر ثبوت عدالت میں برقرار رہتے ہیں تو اس کے خلاف سخت ترین سزا سنائے جانے کے امکانات ہیں۔ پاکستانی قانون کے مطابق ایسی وارداتوں میں سزائے موت یا عمر قید کی سزا سنائی جا سکتی ہے۔
پولیس کی مزید تحقیقات
پولیس حکام کے مطابق وہ اس کیس کے ہر پہلو پر مزید تحقیقات کر رہے ہیں تاکہ یہ یقین دہانی کرائی جا سکے کہ کہیں کسی اور شخص کی معاونت تو شامل نہیں تھی۔ تاہم چالان میں صرف عمر حیات کو ہی ذمہ دار قرار دیا گیا ہے۔

ٹرائل کا منتظر پاکستان
اب سب کی نظریں عدالت پر لگی ہوئی ہیں کہ کیس کا ٹرائل کب اور کیسے آگے بڑھتا ہے۔ عوام اور سول سوسائٹی اس بات کی منتظر ہیں کہ انصاف جلد فراہم ہو اور ملزم کو قرار واقعی سزا دی جائے
اداکارہ حمیرا اصغر کی موت معمہ بن گئی، تحقیقات کے لیے کمیٹی تشکیل