ٹی ایل پی مارچ پولیس آپریشن کے دوران جھڑپیں، پولیس اور مظاہرین میں تصادم، حالات کشیدہ
ابتدائی صورتحال: مریدکے میں تصادم
مریدکے میں ٹی ایل پی مارچ پولیس آپریشن کے دوران شدید جھڑپیں ہوئیں، جن میں پولیس اور مظاہرین کے درمیان گولیاں چلنے سے متعدد افراد جاں بحق اور زخمی ہوگئے۔ پولیس کے مطابق تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے کارکنان نے فائرنگ، پتھراؤ، کیل دار ڈنڈوں اور پیٹرول بموں کا استعمال کیا۔

سیکیورٹی فورسز نے جوابی کارروائی کرتے ہوئے جی ٹی روڈ کو مکمل طور پر خالی کرا لیا اور علاقے کا کنٹرول سنبھال لیا۔ آپریشن کے دوران ایس ایچ او فیکٹری ایریا شہزاد جھومڑ شہید ہوگئے، جبکہ پولیس اور رینجرز کے 48 اہلکار زخمی ہوئے۔
مظاہرین کی فائرنگ اور جانی نقصان
پولیس کے مطابق مظاہرین کی اندھا دھند فائرنگ کے نتیجے میں 3 کارکنان اور ایک راہگیر جاں بحق ہوا، جبکہ 8 عام شہری زخمی ہوئے۔ ٹی ایل پی مارچ پولیس آپریشن کے دوران فائرنگ سے شہریوں میں خوف و ہراس پھیل گیا اور مقامی دکانیں بند ہو گئیں۔
انتشار پسند گروہ نے 40 سے زائد سرکاری و نجی گاڑیوں کو آگ لگا دی۔ پولیس نے متعدد کارکنان کو گرفتار کیا اور زخمیوں کو مقامی اسپتال منتقل کیا گیا۔
پولیس کی حکمت عملی اور ردعمل
سیکیورٹی اداروں کا کہنا ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں کو اپنی جان کے دفاع میں محدود کارروائی کرنا پڑی۔ زخمی اہلکاروں کو لاہور کے مختلف اسپتالوں میں منتقل کر دیا گیا ہے۔ شہید ایس ایچ او شہزاد جھومڑ کی نماز جنازہ پولیس لائنز میں ادا کی جائے گی۔
پولیس ترجمان نے کہا کہ ٹی ایل پی مارچ پولیس آپریشن مکمل ہونے کے بعد جی ٹی روڈ کو کلیئر کر لیا گیا ہے، تاہم علاقے میں اب بھی سرچ آپریشن جاری ہے۔
لاہور میں وکلاء کا احتجاج
مریدکے میں ہونے والے آپریشن کے خلاف لاہور میں ٹی ایل پی کے وکلاء نے ایوانِ عدل کے باہر شدید احتجاج کیا۔ وکلاء نے سول سیکریٹریٹ سے پی ایم جی چوک تک ریلی نکالی اور حکومت مخالف نعرے بازی کی۔
احتجاج کے دوران پولیس اہلکاروں پر مبینہ تشدد بھی ہوا۔ لاہور بار ایسوسی ایشن نے ماتحت عدالتوں میں ہڑتال کا اعلان کر دیا اور وکلاء سے 11 بجے کے بعد عدالتوں میں پیش نہ ہونے کی اپیل کی۔
لاہور بار کے مطالبات
لاہور بار نے مطالبہ کیا کہ گرفتار ٹی ایل پی کارکنوں کو فوری رہا کیا جائے، زخمیوں کو علاج کی بہترین سہولیات فراہم کی جائیں اور شہید مظاہرین کے اہلخانہ کو انصاف دیا جائے۔
بار نے اپنے اعلامیے میں کہا کہ مریدکے میں ٹی ایل پی مارچ پولیس آپریشن غیر ضروری اور غیر متناسب تھا، اس پر اعلیٰ سطح کی تحقیقات کی جائیں۔
عوامی مشکلات اور ٹریفک جام
مذہبی جماعت کے احتجاج کے باعث لاہور، شیخوپورہ اور راوی ٹول پلازہ کے اطراف سڑکیں بند ہو گئیں۔ مسافروں کو طویل سفری مشکلات کا سامنا رہا۔ موٹروے اور جی ٹی روڈ کی بندش سے شہریوں نے ریلوے اسٹیشنوں کا رخ کیا، جہاں ٹرینوں میں غیر معمولی رش دیکھا گیا۔
بڑی تعداد میں مسافروں نے کھڑے ہو کر سفر کیا، جبکہ خواتین، بچے اور بزرگ شہری بھی متاثر ہوئے۔ ریلوے انتظامیہ نے اضافی بوگیاں لگا دیں مگر رش میں کمی نہ آئی۔
راولپنڈی میں معمولات بحال
تین روز بعد راولپنڈی کے تعلیمی ادارے کھل گئے اور درس و تدریس معمول پر آگئی۔ سیکیورٹی کے سخت انتظامات کے باوجود شہریوں نے سکھ کا سانس لیا۔
ایجوکیشن بورڈ کے مطابق میٹرک ضمنی امتحانات بھی معمول کے مطابق جاری ہیں۔ راولپنڈی کے داخلی و خارجی راستے کھلے ہیں اور ٹریفک روانی برقرار ہے۔
اسلام آباد میں عدالتی کارروائیاں متاثر
اسلام آباد ہائیکورٹ میں وکلاء کی اکثریت عدالت نہ پہنچ سکی، جس کے باعث بیشتر مقدمات بغیر کارروائی ملتوی کر دیے گئے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن نے اعلامیہ جاری کرتے ہوئے کہا کہ راستوں کی بندش کے باعث وکلاء کی عدالتوں تک رسائی ممکن نہیں رہی۔
اعلامیے میں عدالتوں سے اپیل کی گئی کہ وکلاء کی غیر حاضری پر کوئی ایڈورس آرڈر نہ دیا جائے۔
حکومت کا مؤقف
وزارتِ داخلہ کے ذرائع کے مطابق حکومت نے واضح کیا ہے کہ کسی بھی مذہبی گروہ کو ریاستی رٹ چیلنج کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
ترجمان کا کہنا تھا کہ ٹی ایل پی مارچ پولیس آپریشن مکمل طور پر قانون کے دائرے میں کیا گیا اور شہریوں کے تحفظ کو اولین ترجیح دی گئی۔
سیاسی ردعمل
اپوزیشن جماعتوں نے واقعے پر مکس ردعمل دیا ہے۔ کچھ رہنماؤں نے پولیس کارروائی کو "ریاستی تشدد” قرار دیا، جبکہ دیگر نے مظاہرین کی فائرنگ کو "قابلِ مذمت” کہا۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس واقعے نے حکومت اور مذہبی جماعتوں کے درمیان تعلقات میں مزید تناؤ پیدا کر دیا ہے۔
ٹی ایل پی احتجاج شدت اختیار کر گیا،2 کارکن جاں بحق اور پچاس سے زائد زخمی
ٹی ایل پی مارچ پولیس آپریشن ایک بار پھر ملک میں قانون و امن کی صورتحال کے حوالے سے سوالات پیدا کر گیا ہے۔ ماہرین کے مطابق اس طرح کے واقعات سے سیاسی و مذہبی تقسیم مزید گہری ہو سکتی ہے، لہٰذا حکومت کو مذاکرات اور حکمت عملی کے ذریعے صورتحال کو قابو میں لانے کی ضرورت ہے۔