بھارت نے آذربائیجانی کارگو پرواز کو فضائی حدود سے روک دیا، 7 گھنٹے میں کولمبو پہنچی
حال ہی میں ایک غیر معمولی واقعہ پیش آیا جب بھارتی حکام نے ایک آذربائیجانی کارگو پرواز کو اپنی بھارتی فضائی حدود میں داخل ہونے سے روک دیا۔ یہ پرواز، جو باکو سے کولمبو جا رہی تھی، معمول کے تین گھنٹے کے سفر کے بجائے سوا سات گھنٹے میں اپنی منزل تک پہنچی۔ اس واقعے نے نہ صرف سفری تاخیر کو جنم دیا بلکہ علاقائی سیاست اور فضائی حدود کے استعمال پر بھی سوالات اٹھائے ہیں۔ اس آرٹیکل میں ہم اس واقعے کی تفصیلات، اس کے پس منظر، اور اس کے ممکنہ اثرات پر بات کریں گے۔
واقعے کا پس منظر اور پرواز کی تفصیلات
آذربائیجانی کارگو پرواز زیڈ پی 4771 باکو سے بھارتی شہر چنئی جاتے ہوئے 23 ستمبر 2025 کو شدید فنی خرابی کی وجہ سے کراچی میں ایمرجنسی لینڈنگ کرنے پر مجبور ہوئی۔ پرواز کو بھارتی فضائی حدود سے گزرنے کی اجازت تھی، لیکن خرابی کے بعد اسے کراچی میں پانچ دن تک گراؤنڈ رکھا گیا۔ غیر ملکی کمپنی کی نگرانی میں طیارے کی مرمت کا عمل مکمل ہوا، اور اس کے بعد پرواز کو کولمبو روانہ ہونا تھا۔ تاہم، بھارتی حکام نے مبینہ طور پر اسے بھارتی فضائی حدود استعمال کرنے سے منع کر دیا۔
اس فیصلے کے نتیجے میں، پرواز کو ایک طویل اور غیر معمولی روٹ اختیار کرنا پڑا۔ طیارے نے کراچی سے اڑان بھری اور بلوچستان کے گوادر سے ہوتے ہوئے ایران کی فضائی حدود میں داخل ہوا۔ اس کے بعد یہ متحدہ عرب امارات کے دبئی اور عمان کے مسقط سے گزرا۔ بحیرہ عرب پر طویل سفر کے بعد یہ مالدیپ کے راستے سے سری لنکا کے کولمبو پہنچا۔ اس روٹ نے پرواز کے دورانیے کو تین گھنٹے سے بڑھا کر سات گھنٹے سے زائد کر دیا۔ بھارتی فضائی حدود سے گریز کی وجہ سے یہ اضافی چار گھنٹے کا سفر طلباء، تاجروں، اور سفارتی حکام کے لیے ایک اہم موضوع بن گیا ہے۔
بھارتی فضائی حدود سے انکار کی وجوہات
بھارتی حکام نے اس پرواز کو بھارتی فضائی حدود میں داخلے سے کیوں روکا، اس بارے میں کوئی سرکاری بیان جاری نہیں کیا گیا۔ تاہم، کچھ مبصرین کا خیال ہے کہ اس فیصلے کے پیچھے سیاسی وجوہات ہو سکتی ہیں۔ خاص طور پر، پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدہ تعلقات کو اس فیصلے سے جوڑا جا رہا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ بھارت میں پاکستان سے متعلق حساسیت بڑھ رہی ہے، اور کراچی میں ایمرجنسی لینڈنگ کے بعد اس پرواز کو بھارتی فضائی حدود سے گزرنے کی اجازت نہ دینا اسی تناظر میں دیکھا جا رہا ہے۔
کچھ رپورٹس میں دعویٰ کیا گیا کہ بھارتی حکام کو اس پرواز کے بارے میں سیکورٹی خدشات تھے، کیونکہ یہ کراچی میں گراؤنڈ رہ چکی تھی۔ تاہم، یہ محض قیاسات ہیں، کیونکہ بھارتی حکام نے اس بارے میں کوئی وضاحت پیش نہیں کی۔ بھارتی فضائی حدود کا استعمال عام طور پر بین الاقوامی پروازوں کے لیے کھلا ہوتا ہے، لیکن اس واقعے نے اس پالیسی پر سوالات اٹھائے ہیں۔
پرواز کا طویل روٹ اور اس کے اثرات
عام طور پر، کراچی سے کولمبو تک کا فضائی سفر بھارتی فضائی حدود سے گزرتے ہوئے تین گھنٹے میں مکمل ہو جاتا ہے۔ تاہم، اس پرواز کو گوادر، ایران، دبئی، مسقط، اور مالدیپ کے راستے سے سفر کرنا پڑا، جس نے اسے بھارتی فضائی حدود سے مکمل طور پر دور رکھا۔ اس طویل روٹ کی وجہ سے ایندھن کے اخراجات میں اضافہ ہوا، اور پرواز کے عملے اور کارگو کے مالکان کو غیر معمولی تاخیر کا سامنا کرنا پڑا۔
یہ واقعہ نہ صرف اس پرواز کے لیے ایک چیلنج تھا بلکہ اس نے بین الاقوامی فضائی سفر کے قوانین اور پڑوسی ممالک کے درمیان تعاون پر بھی سوالات اٹھائے ہیں۔ بھارتی فضائی حدود سے انکار نے ایوی ایشن انڈسٹری میں بحث کو جنم دیا ہے کہ کیا اس طرح کے فیصلے سیاسی تناؤ کی وجہ سے کیے جا رہے ہیں یا اس کے پیچھے کوئی اور وجہ ہے۔
علاقائی سیاست اور فضائی حدود کا استعمال
پاکستان اور بھارت کے درمیان فضائی حدود کے استعمال کا معاملہ ہمیشہ سے حساس رہا ہے۔ 2019 میں بالاکوٹ واقعے کے بعد بھارت نے پاکستان کی فضائی حدود کو بند کر دیا تھا، جس سے متعدد بین الاقوامی پروازیں متاثر ہوئیں۔ اس کے برعکس، پاکستان کی فضائی حدود کا استعمال دنیا بھر کی ایئرلائنز بھارت کے سفر کے لیے کرتی ہیں۔ اس تناظر میں، بھارتی فضائی حدود سے اس پرواز کو روکنا ایک غیر معمولی اقدام سمجھا جا رہا ہے۔
کچھ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ بھارت کی جانب سے اپنی فضائی حدود پر سخت کنٹرول کی پالیسی کا حصہ ہو سکتا ہے۔ خاص طور پر، کراچی میں ایمرجنسی لینڈنگ کے بعد بھارتی حکام کو شاید یہ خدشہ تھا کہ پرواز میں کوئی حساس مواد ہو سکتا ہے، حالانکہ اس کی کوئی تصدیق نہیں ہوئی۔ بھارتی فضائی حدود سے انکار نے یہ واضح کر دیا کہ دونوں ممالک کے درمیان اعتماد کی کمی اب بھی موجود ہے۔
ایوی ایشن انڈسٹری پر ممکنہ اثرات
اس واقعے کے ایوی ایشن انڈسٹری پر کئی ممکنہ اثرات ہو سکتے ہیں۔ سب سے پہلے، اس سے کارگو پروازوں کے اخراجات میں اضافہ ہو سکتا ہے، کیونکہ طویل روٹس ایندھن کی کھپت کو بڑھاتے ہیں۔ دوم، اس طرح کے فیصلے دیگر ایئرلائنز کو بھی متاثر کر سکتے ہیں جو بھارتی فضائی حدود کا استعمال کرتی ہیں۔ اگر بھارت اس طرح کے اقدامات کو جاری رکھتا ہے تو ایوی ایشن کمپنیوں کو متبادل روٹس تلاش کرنے پڑیں گے، جو وقت اور وسائل دونوں کے لحاظ سے مہنگا ثابت ہوگا۔
مزید برآں، اس واقعے نے بین الاقوامی ایوی ایشن قوانین پر بھی روشنی ڈالی ہے۔ انٹرنیشنل سول ایوی ایشن آرگنائزیشن (ICAO) کے مطابق، ممالک کو اپنی فضائی حدود کے استعمال کے لیے شفاف پالیسی اپنانا ہوتی ہے۔ بھارتی فضائی حدود سے انکار کے اس واقعے نے اس پالیسی پر سوالات اٹھائے ہیں کہ کیا بھارت نے ICAO کے اصولوں کی پاسداری کی یا نہیں۔
طلباء اور عوام کے لیے مشورے
یہ واقعہ ہر اس شخص کے لیے ایک سبق ہے جو بین الاقوامی سفر یا کارگو خدمات سے وابستہ ہے۔ ایسی صورتحال سے بچنے کے لیے ایئرلائنز اور مسافروں کو اپنے روٹس کی پیشگی منصوبہ بندی کرنی چاہیے۔ اگر بھارتی فضائی حدود سے گزرنے کی اجازت نہ ملے تو متبادل راستوں پر غور کرنا ضروری ہے۔ مزید برآں، ایئرلائنز کو اپنی پروازوں کی تکنیکی حالت کو یقینی بنانا چاہیے تاکہ ایمرجنسی لینڈنگ جیسے واقعات سے بچا جا سکے۔
عوام کو بھی اس طرح کے واقعات سے آگاہ رہنا چاہیے، کیونکہ یہ علاقائی سیاست اور ایوی ایشن پالیسیوں کی پیچیدگیوں کو سمجھنے میں مدد دیتے ہیں۔ بھارتی فضائی حدود سے متعلق اس فیصلے نے واضح کیا کہ سیاسی تناؤ کا اثر نہ صرف زمینی سرحدوں بلکہ فضائی حدود پر بھی پڑتا ہے۔
ترکی اور اسرائیل تعلقات ختم، فضائی حدود اور تجارتی روابط منقطع
آذربائیجانی کارگو پرواز کا یہ واقعہ ایک اہم مثال ہے کہ کس طرح سیاسی فیصلے ایوی ایشن انڈسٹری کو متاثر کر سکتے ہیں۔ بھارتی فضائی حدود سے انکار نے نہ صرف اس پرواز کے سفر کو طویل کیا بلکہ اس نے علاقائی تعلقات پر بھی سوالات اٹھائے ہیں۔ امید ہے کہ مستقبل میں اس طرح کے واقعات سے بچنے کے لیے بھارت اور دیگر ممالک شفاف پالیسیاں اپنائیں گے۔ اس وقت تک، ایئرلائنز اور مسافروں کو چوکنا رہنا چاہیے اور اپنی منصوبہ بندی کو بہتر بنانا چاہیے۔