جسٹس محسن اختر کیانی کا بیان – ایمان مزاری کیس میں عدالت کا فیصلہ محفوظ
اسلام آباد ہائیکورٹ میں معروف سماجی کارکن اور وکیل ایمان مزاری کی ایک تقریر کے تناظر میں دائر توہین عدالت کی درخواست پر سماعت کے دوران جسٹس محسن اختر کیانی نے نہ صرف قانون و انصاف کے بنیادی اصولوں کو اجاگر کیا بلکہ اظہارِ رائے کی آزادی، عدالتی وقار، اور عدلیہ میں مبینہ تقسیم جیسے حساس موضوعات پر بھی واضح مؤقف اپنایا۔
درخواست گزار حافظ احتشام احمد کی جانب سے دائر کی گئی اس پٹیشن میں مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ ایمان مزاری نے پریس کلب کے باہر ایک تقریر میں ٹرائل کورٹ کے ججز کے بارے میں ایسے ریمارکس دیے جو توہین عدالت کے زمرے میں آتے ہیں اور ان سے یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ عدلیہ تقسیم کا شکار ہے۔ مزید یہ بھی کہا گیا کہ ایمان مزاری نے اپنی تقریر میں بالواسطہ یا بلاواسطہ پانچ ججز کو ہدف بنایا، جن میں جسٹس محسن اختر کیانی بھی شامل ہیں۔
- عدالت کا جواب: "یہاں رک جائیں!”
- جسٹس محسن اختر کیانی نے سماعت کے دوران درخواست گزار پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا:
- "یہیں پر رک جائیں، آگے ایک لفظ بھی مت بولیے گا۔”
ان کا کہنا تھا کہ ہر شخص کو ذاتی رائے رکھنے کا حق حاصل ہے، لیکن عدالت کے وقار کو لے کر جو سوال اٹھائے جا رہے ہیں، ان کی نوعیت، نیت اور اثرات کو دیکھنا ضروری ہے۔ انہوں نے دو ٹوک انداز میں واضح کیا کہ:
"اس عدالت میں کوئی تقسیم نہیں۔ کوئی بھی جج اگر محسوس کرے کہ اُس کی عزتِ نفس مجروح ہوئی ہے تو اُسے خود آ کر یہ بات کہنی چاہیے۔ اگر کوئی اور شخص یہ دعویٰ کرے تو اس کا مطلب اور تاثر مختلف ہوگا۔”
یہ بیان دراصل عدلیہ کی خودمختاری، آزادی اور سالمیت کے حق میں ایک واضح پیغام تھا، جس میں عدالت نے اس امر کو مسترد کیا کہ باہر سے لگائے گئے الزامات یا تاثرات کو بنیاد بنا کر عدالت کی نیت پر شک کیا جائے۔
اظہارِ رائے کی آزادی اور اس کی حدود
سماعت کے دوران حافظ احتشام نے ایمان مزاری کی پریس کلب کے باہر کی گئی تقریر عدالت میں پڑھ کر سنائی، جس میں انہوں نے مبینہ طور پر کہا تھا کہ "ججوں پر دباؤ ہے” اور "عدلیہ تقسیم کا شکار ہے”۔ اس پر جسٹس محسن کیانی نے استفسار کیا:
"جو کچھ آپ سنا رہے ہیں، اس پر توہین عدالت کیسے لگتی ہے؟ ہر شہری کو اظہار رائے کی آزادی حاصل ہے۔ کیا ٹرائل کورٹ کے کسی جج نے اس بارے میں کوئی شکایت درج کرائی ہے؟”
یہ سوال نہ صرف عدالتی عمل کی غیر جانبداری کا عکاس ہے بلکہ یہ بھی ظاہر کرتا ہے کہ عدالت توہین عدالت جیسے نازک معاملے میں ہلکے یا سیاسی الزامات کو بنیاد بنانے کے حق میں نہیں۔ عدالت نے آئینی حق، یعنی آزادی اظہار کے اصول کو مقدم رکھا اور واضح کیا کہ تنقید اور توہین میں فرق ہوتا ہے۔
"کمزور ججز کی نشاندہی کرنے میں کیا برائی ہے؟”
عدالت نے ایک اہم نکتہ یہ بھی اٹھایا کہ ایمان مزاری کی تقریر کا مقصد اگر "کمزور” ججز کی نشاندہی تھا تو اسے مکمل طور پر برا تصور نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ ہر شعبے میں کچھ لوگ بہتر ہوتے ہیں، کچھ کمزور۔ جسٹس محسن کیانی کے الفاظ میں:
"ایمان مزاری تو کمزور ججز کی نشاندہی کر رہی ہیں، اس میں کیا برا ہے؟ کچھ ججز اچھے ہوتے ہیں اور کچھ نالائق بھی ہو سکتے ہیں۔”
یہ بیان حقیقت پسندی کی عکاسی کرتا ہے کہ عدلیہ بھی معاشرے کا ہی حصہ ہے جہاں اصلاح کی گنجائش ہمیشہ موجود رہتی ہے۔ اس سے یہ تاثر بھی زائل ہوتا ہے کہ عدلیہ تنقید سے بالا تر ہے۔
توہین عدالت کی قانونی تعریف
پاکستانی قانون میں توہین عدالت کی تعریف بہت واضح ہے: ایسا عمل یا بیان جو عدالت کے احترام یا اس کی کارروائی کو متاثر کرے یا عوام کے سامنے عدلیہ کو متنازع بنانے کا سبب بنے، توہین کے زمرے میں آتا ہے۔ تاہم، اس کا اطلاق تب ہی ممکن ہے جب یہ ثابت ہو جائے کہ بیان یا عمل عدالت کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کے لیے جان بوجھ کر کیا گیا ہو۔
جسٹس کیانی نے اس بنیادی اصول کو مدنظر رکھتے ہوئے بارہا استفسار کیا کہ کیا واقعی ایمان مزاری کی تقریر میں ایسی کوئی چیز تھی جو براہ راست کسی جج یا عدالتی کارروائی پر اثرانداز ہوئی ہو؟ ان کے مطابق، جب تک خود متاثرہ جج ایسی کوئی شکایت نہ کرے، عدالت اس پر یکطرفہ کارروائی نہیں کر سکتی۔
درخواست قابلِ سماعت ہے یا نہیں؟ فیصلہ محفوظ
عدالت نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کر لیا کہ آیا یہ درخواست قابلِ سماعت ہے یا نہیں۔ عام طور پر، توہین عدالت کی کارروائی اسی وقت کی جاتی ہے جب عدالت خود نوٹس لے یا براہِ راست متاثرہ جج تحریری شکایت کے ساتھ رجوع کرے۔
سیاسی اور عدالتی میدان کا فرق
یہ معاملہ عدلیہ اور سیاست کے بیچ لکیر کھینچنے کی ایک مثال بھی ہے۔ ایمان مزاری ایک سیاسی و سماجی کارکن ہیں، جو انسانی حقوق، شہری آزادیوں، اور ادارہ جاتی اصلاحات کی علمبردار سمجھی جاتی ہیں۔ ان کے بیانات بعض اوقات تند و تیز ہوتے ہیں، مگر انہیں عدالتی فریم میں لاتے وقت احتیاط لازم ہے۔ عدالتی کارروائیوں کو سیاسی یا ذاتی تنازعات میں گھسیٹنا نہ صرف عدلیہ کی غیرجانبداری پر سوال اٹھا سکتا ہے بلکہ اظہار رائے کی آزادی کو بھی محدود کرنے کا ذریعہ بن سکتا ہے۔
عدلیہ کی خودمختاری اور برداشت کا مظاہرہ
اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی نے جس تحمل، فراست اور آئینی بصیرت کے ساتھ اس حساس مقدمے کی سماعت کی، وہ عدلیہ کی خودمختاری اور برداشت کی بہترین مثال ہے۔ عدالت نے واضح کر دیا کہ ہر شخص کو تنقید کا حق حاصل ہے، اور جب تک یہ تنقید حدود سے تجاوز نہ کرے، اسے برداشت کیا جائے گا۔
یہ فیصلہ نہ صرف عدالتی روایت کے مطابق تھا بلکہ ایک ایسے وقت میں جب پاکستان میں ادارہ جاتی تناؤ کی فضا پائی جاتی ہے، ایک مثبت اور آئینی پیغام بھی دیتا ہے: عدلیہ طاقتور ہے، مگر انتقامی نہیں؛ عدلیہ خودمختار ہے، مگر تنقید سے بالاتر نہیں۔
