مشتاق احمد خان وطن واپس، عوام کا والہانہ استقبال
مشتاق احمد خان کی واپسی: فلسطین کے لیے آواز بلند کرنے والا بیٹا وطن لوٹ آیا
پاکستان کے سابق سینیٹر، ممتاز سیاسی و سماجی رہنما مشتاق احمد خان بالآخر وطن واپس پہنچ گئے۔ وہ اردن سے اسلام آباد پہنچے تو عوام کا سمندر ان کے استقبال کے لیے موجود تھا۔ ہوائی اڈے کے باہر شہریوں کی ایک بڑی تعداد نے مشتاق احمد خان کا شاندار استقبال کیا، ان پر پھولوں کی پتیاں نچھاور کیں اور نعرہ تکبیر کی گونج میں انہیں خراج تحسین پیش کیا۔ ہر چہرہ خوشی اور فخر سے چمک رہا تھا — کیونکہ یہ صرف ایک شخص کی واپسی نہ تھی، بلکہ ایک ضمیر کی صدائے بازگشت تھی، جو فلسطینیوں کی حمایت میں دنیا کے ہر ضمیر دار انسان کو جھنجھوڑ رہی ہے۔
فلسطینی پرچم اور کفیہ: یکجہتی کا نشان
استقبال کے اس تاریخی منظر میں جہاں قومی پرچم لہرا رہے تھے، وہاں فلسطین کے پرچم بھی فخر سے بلند کیے گئے تھے۔ مشتاق احمد خان نے خود بھی فلسطینی کفیہ (روایتی عربی رومال) گلے میں پہن رکھا تھا — جو اس بات کا اعلان تھا کہ وہ صرف پاکستان کے نہیں بلکہ امت مسلمہ کے اجتماعی ضمیر کی نمائندگی کر رہے ہیں۔
شہریوں نے "فلسطین زندہ باد” اور "مشتاق احمد خان قدم بڑھاؤ، ہم تمہارے ساتھ ہیں” جیسے نعرے لگا کر اس بات کا ثبوت دیا کہ فلسطین کے حق میں اٹھنے والی آواز پاکستان کے دل کی آواز ہے۔
گلوبل صمود فلوٹیلا: ایک پرخطر مگر مقدس مشن
یاد رہے کہ سابق سینیٹر مشتاق احمد خان فلسطین کے محصور اور مظلوم عوام کے لیے امدادی سامان لیکر جانے والے عالمی قافلے "گلوبل صمود فلوٹیلا” کا حصہ تھے۔ اس فلوٹیلا میں دنیا بھر سے تعلق رکھنے والے 500 کے قریب انسانی حقوق کے کارکن شامل تھے، جن کا مقصد غزہ پر مسلط غیر قانونی اسرائیلی محاصرے کو توڑ کر وہاں انسانی امداد پہنچانا تھا۔
یہ قافلہ دنیا بھر میں آزادی، انسانی حقوق، اور مظلوموں کی حمایت کا استعارہ بن چکا تھا۔ مشتاق احمد خان نہ صرف پاکستان بلکہ عالم اسلام کے نمائندے کے طور پر اس مشن میں شامل ہوئے اور ظالم کے خلاف آواز بلند کرنے کا عملی مظاہرہ کیا۔
اسرائیلی جبر، گرفتاریاں اور صعوبتیں
تاہم یہ پرامن مشن بھی اسرائیلی جارحیت کا نشانہ بن گیا۔ اسرائیلی افواج نے فلوٹیلا کی تمام کشتیوں پر قبضہ کر لیا اور ان پر سوار تمام افراد کو حراست میں لے لیا۔ ان 500 کے قریب کارکنان کو بدنام زمانہ جیلوں میں قید رکھا گیا، جہاں ان پر غیر انسانی سلوک کیا گیا۔ خود مشتاق احمد خان نے اپنی رہائی کے بعد جاری کردہ ویڈیو پیغام میں انکشاف کیا کہ:
“ہمیں ایسے قید خانوں میں رکھا گیا جہاں جانوروں سے بھی بدتر سلوک ہوتا ہے۔ ہم پر کتے چھوڑے گئے، آوازیں کسیں گئیں، اور خوف زدہ کرنے کی ہر ممکن کوشش کی گئی۔ لیکن ہمارا حوصلہ نہ ٹوٹا، کیونکہ ہم حق کے ساتھ کھڑے تھے۔”
ان الفاظ میں ایک ایسا درد اور سچائی ہے جو عالمی ضمیر کو جھنجھوڑنے کے لیے کافی ہے۔
پاکستانی حکومت کا کردار
وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے دو روز قبل سینیٹر مشتاق احمد خان کی رہائی کی تصدیق کی تھی اور بتایا تھا کہ وہ مکمل خیریت سے ہیں اور ان کے حوصلے بلند ہیں۔ حکومت پاکستان نے اس معاملے میں سفارتی کوششیں کیں، اور پاکستانی عوام کی طرف سے عالمی برادری پر مسلسل دباؤ نے اسرائیل کو رہائی پر مجبور کیا۔
مشتاق احمد خان نے وطن واپسی پر حکومت پاکستان، عوام، اور تمام کارکنان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے عزم ظاہر کیا کہ:
“یہ سفر ختم نہیں ہوا۔ میں بہت جلد ایک اور زیادہ مؤثر انداز میں غزہ کے لیے روانہ ہوں گا۔ فلسطین کی آزادی کی جدوجہد جاری رہے گی، یہاں تک کہ فلسطینی سرزمین سے آخری صیہونی قبضہ ختم ہو جائے۔”
فلسطین کی جدوجہد: ایک عالمگیر مقدمہ
فلسطین کی آزادی صرف عربوں کا نہیں، بلکہ پوری انسانیت کا مقدمہ ہے۔ مشتاق احمد خان جیسے رہنما اس بات کا ثبوت ہیں کہ جب سیاسی وابستگیاں، ذاتی مفادات اور جغرافیائی سرحدوں سے بالاتر ہو کر کوئی شخص مظلوموں کے لیے کھڑا ہوتا ہے تو اس کی آواز سرحدوں سے پار گونجتی ہے۔
ان کی گرفتاری اور رہائی کے دوران پاکستان کے علاوہ ترکی، ملائیشیا، جنوبی افریقہ، برطانیہ، اور کئی یورپی ممالک میں بھی فلوٹیلا کے حق میں مظاہرے ہوئے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ فلسطین کے حق میں آواز اٹھانا ایک عالمی تحریک کی صورت اختیار کر چکی ہے۔
عوامی ردعمل: غیر معمولی پذیرائی
اسلام آباد ایئرپورٹ پر عوام کا جوش و جذبہ ناقابل بیان تھا۔ سینکڑوں مرد و خواتین، نوجوان، بزرگ، اور بچے ہاتھوں میں پھول، بینرز اور فلسطینی پرچم اٹھائے مشتاق احمد خان کے منتظر تھے۔ ان کی آمد پر فضا نعرہ ہائے تکبیر، لبیک یا اقصیٰ، اور مشتاق خان زندہ باد کے نعروں سے گونج اٹھی۔
یہ مناظر صرف ایک سیاسی رہنما کے استقبال کا نہیں، بلکہ حق، حوصلے اور انسانیت کی جیت کا جشن تھے۔ ان کا چہرہ تھکا ہوا ضرور تھا، مگر آنکھوں میں ایک ایسا عزم جھلک رہا تھا جو صرف سچے انقلابیوں میں دکھائی دیتا ہے۔
آئندہ کا لائحہ عمل: عزم، قربانی، اور مزاحمت
مشتاق احمد خان کی وطن واپسی کے بعد ان کا اگلا مشن واضح ہے — وہ دوبارہ غزہ جانے کا اعلان کر چکے ہیں۔ یہ اعلان محض ایک سیاسی نعرہ نہیں بلکہ ایک عہد ہے، جو انہوں نے اپنے ضمیر، اپنے ملک، اور مظلوم فلسطینیوں سے کیا ہے۔
ان کی رہائی نے پاکستان کے نوجوانوں، کارکنوں اور باشعور شہریوں کو نئی توانائی بخشی ہے۔ سوشل میڈیا پر ان کے حق میں جاری مہم اب ایک تحریک کی شکل اختیار کرتی جا رہی ہے۔ فلسطین کے حق میں بیداری کی یہ لہر اب تھمنے والی نہیں۔
مشتاق خان کی واپسی، ایک نئی شروعات
سابق سینیٹر مشتاق احمد خان کی واپسی دراصل نئے عزم، نئی تحریک، اور نئے سفر کی شروعات ہے۔ ان کا کردار ہمیں یاد دلاتا ہے کہ دنیا کے ہر کونے میں اگر کوئی مظلوم ہے تو ہم خاموش نہیں رہ سکتے۔
آج جب وہ دوبارہ فلسطین جانے کی بات کرتے ہیں، تو یہ صرف ایک فرد کی بات نہیں، بلکہ ایک اجتماعی جذبے کی عکاسی ہے۔ وہ جذبہ جو کہتا ہے:
"ظلم جہاں بھی ہو، اس کے خلاف آواز بلند کرنا ہمارا فرض ہے — اور جب تک بیت المقدس آزاد نہیں ہوتا، ہم چین سے نہیں بیٹھیں گے۔"











