ابھیشیک بچن اور ایشوریا رائے کا گوگل کے خلاف مقدمہ: مصنوعی ذہانت کے دور میں شخصیت اور آواز پر اختیار کی لڑائی، قانونی اقدامات کا مطالبہ
ممبئی / دہلی — بالی ووڈ کے عالمی شہرت یافتہ جوڑے، ایشوریا رائے بچن اور ابھیشیک بچن نے نئی دہلی ہائی کورٹ میں ایک ایسا مقدمہ دائر کیا ہے جو نہ صرف بھارتی فلم انڈسٹری بلکہ دنیا بھر کی شوبز اور ٹیکنالوجی کی دنیا میں گہری بازگشت پیدا کر رہا ہے۔ یہ مقدمہ مصنوعی ذہانت (AI)، دانشمندانہ املاک (Intellectual Property Rights) اور انسانی شخصیت کے حقوق کے تحفظ کے حوالے سے اپنی نوعیت کا سب سے بڑا اور اہم کیس سمجھا جا رہا ہے۔
مقدمے کی بنیاد: شخصیت کے حقوق پر مصنوعی ذہانت کا حملہ
ایشوریا رائے کا گوگل کے خلاف مقدمہ میں مؤقف اختیار ہے کہ یوٹیوب پر ان کی شکل و صورت اور آواز کی نقالی کرتے ہوئے مصنوعی ذہانت سے تیار کی گئی ویڈیوز نہ صرف ان کی ساکھ اور شہرت کو نقصان پہنچا رہی ہیں بلکہ یہ ان کے بنیادی قانونی اور اخلاقی حقوق کی خلاف ورزی بھی ہیں۔
درخواست میں کہا گیا ہے کہ ڈیپ فیک اور اے آئی پر مبنی یہ ویڈیوز "شخصیت کے حقِ ملکیت” (Right of Publicity) کی کھلی خلاف ورزی ہیں، جو دنیا بھر میں شوبز انڈسٹری کے فنکاروں کے لیے ایک سنجیدہ مسئلہ بنتا جا رہا ہے۔
ابھیشیک اور ایشوریا رائے کا گوگل کے خلاف مقدمہ میں عدالت سے استدعا کی ہے کہ:
ایسی تمام ویڈیوز کو فوری طور پر ہٹایا جائے۔
گوگل (یوٹیوب کی پیرنٹ کمپنی) کو پابند کیا جائے کہ مستقبل میں اس طرح کا مواد اپ لوڈ یا شیئر نہ ہو۔
ایسے حفاظتی اقدامات کیے جائیں کہ ان ویڈیوز کو مصنوعی ذہانت کے پلیٹ فارمز کی تربیت (AI Training) کے لیے استعمال نہ کیا جا سکے۔
بالی ووڈ میں بڑھتی ہوئی تشویش
گزشتہ چند برسوں میں متعدد بالی ووڈ ستارے عدالت سے رجوع کر چکے ہیں تاکہ اپنی شخصیت اور شہرت کے حقوق کا تحفظ کر سکیں۔ تاہم ماہرین کے مطابق بچن فیملی کا یہ کیس سب سے زیادہ ہائی پروفائل مقدمہ ہے کیونکہ اس میں پہلی بار یہ مؤقف سامنے آیا ہے کہ یوٹیوب پر موجود ڈیپ فیک ویڈیوز کو دوسرے AI ماڈلز کی ٹریننگ کے لیے بھی استعمال کیا جا رہا ہے، جو مزید گمراہ کن اور نقصان دہ مواد کی راہ ہموار کرتا ہے۔
ایشوریا رائے کا گوگل کے خلاف مقدمہ دراصل ایک نئے دور کے خطرات کو اجاگر کرتا ہے جہاں مشہور شخصیات کی شکل و صورت اور آواز محض چند سیکنڈ میں ڈیجیٹل طور پر تیار کی جا سکتی ہے۔
ایشوریا رائے پیرس فیشن ویک میں شاندار انداز سے مداحوں کو حیران کردیا
عدالت میں کارروائی اور آئندہ سماعت
دہلی ہائی کورٹ نے گزشتہ ماہ گوگل کے وکیل سے کہا تھا کہ وہ عدالت میں تحریری جواب داخل کریں۔ عدالت نے یہ جواب 15 جنوری کی اگلی سماعت سے پہلے جمع کرانے کی ہدایت کی ہے۔
ایشوریا رائے کا گوگل کے خلاف مقدمہ میں نہ صرف ویڈیوز کو ہٹانے کا مطالبہ کیا ہے بلکہ چار لاکھ 50 ہزار امریکی ڈالر (تقریباً 12.5 کروڑ بھارتی روپے) ہرجانے کا بھی دعویٰ کیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے مستقل قانونی اقدامات کی استدعا کی ہے تاکہ مستقبل میں ایسے استحصال کو روکا جا سکے۔
ڈیپ فیک ٹیکنالوجی: ایک نیا بحران
"ڈیپ فیک” (Deepfake) ایک ایسی ٹیکنالوجی ہے جس میں مصنوعی ذہانت کسی فرد کی آواز اور چہرے کی باریک ترین تفصیلات کی نقالی کرتے ہوئے ایسی ویڈیوز تیار کرتی ہے جو بظاہر حقیقت لگتی ہیں لیکن دراصل جعلی ہوتی ہیں۔
دنیا بھر میں ڈیپ فیک ویڈیوز سیاست، فنون لطیفہ اور میڈیا میں بڑی تیزی سے پھیل رہی ہیں۔ حالیہ برسوں میں کئی عالمی رہنماؤں اور فنکاروں کی جعلی ویڈیوز وائرل ہوئیں جنہوں نے عوامی رائے پر براہِ راست اثر ڈالا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ ٹیکنالوجی مثبت مقاصد، جیسے فلم سازی یا تعلیمی مواد، میں استعمال کی جا سکتی ہے لیکن جب اس کا غلط استعمال ہوتا ہے تو یہ ساکھ، اعتماد اور شہرت کو تباہ کر دیتی ہے۔
عالمی پس منظر
یہ معاملہ صرف بھارت تک محدود نہیں ہے۔ امریکہ اور یورپ میں بھی فنکار اور پالیسی ساز ادارے مصنوعی ذہانت کے اس بے قابو پھیلاؤ پر تحفظات کا اظہار کر چکے ہیں۔
ہالی وڈ میں: گزشتہ سال امریکی فنکاروں کی یونین SAG-AFTRA نے ہالی ووڈ اسٹوڈیوز کے خلاف ہڑتال کرتے ہوئے واضح کیا تھا کہ اداکاروں کی آواز اور چہرے کو بغیر اجازت استعمال کرنا ناقابل قبول ہے۔
یورپ میں: یورپی یونین نے ڈیپ فیک پر قابو پانے کے لیے AI قوانین متعارف کرائے ہیں، جن کے تحت جعلی مواد پر لیبل لگانا اور اس کی وضاحت کرنا لازمی قرار دیا جا رہا ہے۔
ماہرین کی رائے
قانونی ماہرین کے مطابق بچن فیملی کا مقدمہ بھارت میں ایک مثالی کیس (Test Case) ثابت ہو سکتا ہے جو مستقبل میں دیگر فنکاروں کے لیے بھی قانونی راستہ فراہم کرے گا۔
ڈیجیٹل رائٹس کے ماہر پروفیسر اجے پرکاش کا کہنا ہے:
” ایشوریا رائے کا گوگل کے خلاف مقدمہ صرف ایک شہرت کا معاملہ نہیں بلکہ یہ ایک پورے نظام کے تحفظ کا سوال ہے۔ اگر عدالت نے سخت فیصلے دیے تو یہ بھارت میں AI ریگولیشن کی بنیاد بن سکتا ہے۔”

شائقین اور انڈسٹری کا ردعمل
بالی ووڈ کے اندر اور باہر ایشوریا رائے کا گوگل کے خلاف مقدمہ بڑی دلچسپی سے دیکھا جا رہا ہے۔ کئی فنکاروں نے سوشل میڈیا پر بچن فیملی کی حمایت کی ہے اور مطالبہ کیا ہے کہ حکومت اور عدلیہ اس مسئلے پر سخت قانون سازی کرے۔
فلم انڈسٹری سے جڑی تنظیموں نے بھی کہا ہے کہ اگر فنکاروں کے بنیادی حقوق محفوظ نہ کیے گئے تو مستقبل میں فلم سازی، تشہیر اور برانڈ انڈورسمنٹ جیسے شعبے بری طرح متاثر ہو سکتے ہیں۔
ایشوریا رائے اور ابھیشیک بچن کا یوٹیوب اور گوگل کے خلاف مقدمہ اس بات کا اعلان ہے کہ مصنوعی ذہانت کے دور میں انسانی شخصیت پر اختیار کے حقوق کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔
ایشوریا رائے کا گوگل کے خلاف مقدمہ نہ صرف بھارت بلکہ دنیا بھر میں مستقبل کی قانونی اور اخلاقی بحث کا رخ متعین کر سکتا ہے۔ اگر عدالت بچن فیملی کے حق میں فیصلہ دیتی ہے تو یہ فنکاروں اور عام صارفین کے لیے ایک بڑی کامیابی ہوگی، لیکن اگر فیصلہ کمپنیوں کے حق میں آیا تو یہ سوال اور بھی شدت اختیار کر جائے گا کہ کیا ٹیکنالوجی انسان کے بنیادی حقوق پر حاوی ہو سکتی ہے؟
Aishwarya Rai and Abhishek Bachchan have sued YouTube and Google to the tune of $450,000 over AI deepfakes. pic.twitter.com/uevyo4cKHZ
— Sensei Kraken Zero (@YearOfTheKraken) October 1, 2025
Comments 1