گندم کی سرکاری قیمت ناکام پالیسی ثابت: منڈی غیر مستحکم، زمیندار اور فلور ملز فائدے میں
اسلام آباد (29 جولائی 2025): پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ڈیولپمنٹ اکنامکس (PIDE) نے اپنی تازہ رپورٹ میں ملک میں گندم کی امدادی قیمت کی پالیسی کو ناکام قرار دیتے ہوئے اس اہم زرعی شعبے کی مکمل اور منظم ڈی ریگولیشن کی تجویز پیش کی ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ موجودہ پالیسی سے نہ تو منڈی مستحکم ہوئی، نہ ہی کاشتکاروں کو مطلوبہ تحفظ ملا اور نہ ہی صارفین کو ریلیف حاصل ہوا، بلکہ اس کے برعکس بعض طاقتور عناصر کو فائدہ پہنچا۔
بڑے زمیندار اور مڈل مین مستفید، چھوٹا کسان پس پشت
PIDE کی رپورٹ کے مطابق، گندم کی کم از کم امدادی قیمت (Minimum Support Price – MSP) کا فائدہ اصل کاشتکار کو پہنچنے کے بجائے بڑے زمینداروں، فلور ملز اور مڈل مین (بیوپاریوں) کو پہنچ رہا ہے۔ اس عمل نے گندم کی منڈی کو غیر شفاف بنا دیا ہے، جس سے نہ صرف قیمتوں میں استحکام متاثر ہوا بلکہ چھوٹے کسان معاشی طور پر مزید کمزور ہوئے۔
گردشی قرضے میں اضافہ اور وسائل کا ضیاع
رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ صرف پنجاب میں 2023 تک گندم کے شعبے کا گردشی قرضہ 680 ارب روپے تک پہنچ چکا ہے۔ اس کا سبب حکومت کی جانب سے گندم کی امدادی قیمت پر خریداری اور اس کی ذخیرہ اندوزی کے لیے سالانہ بھاری رقم کا استعمال ہے، جو عوامی ٹیکس ریونیو سے حاصل کی جاتی ہے۔
یہ فنڈز اگر تعلیمی، صحت اور دیگر ترقیاتی شعبوں پر خرچ کیے جاتے تو ان کا معاشی اثر کہیں زیادہ ہوتا۔ تاہم، موجودہ پالیسی میں یہ سرمایہ بڑے کاروباری حلقوں کو فائدہ پہنچانے کے لیے استعمال ہو رہا ہے، جبکہ غریب کسان اس سے محروم رہ جاتا ہے۔
زرعی شعبے میں تنوع کی راہ میں رکاوٹ
امدادی قیمت کی موجودگی نے کسانوں کو دیگر فصلوں کی طرف جانے سے بھی روک دیا ہے۔ کیونکہ انہیں یقین ہوتا ہے کہ گندم کی امدادی قیمت انہیں کسی حد تک مالی تحفظ دے گی، چاہے مارکیٹ میں گندم کی طلب کم ہو یا قیمتیں گر جائیں۔ یہ پالیسی فصلوں میں تنوع (Crop Diversification) کی حوصلہ شکنی کا سبب بنی ہے، جو کہ موسمیاتی تبدیلی اور معیشت کی پائیداری کے لیے نہایت ضروری ہے۔
مارکیٹ سے حکومتی انخلا کا منفی اثر
رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ جب گزشتہ سال حکومت نے اچانک گندم کی مارکیٹ سے انخلا کیا تو منڈی شدید متاثر ہوئی۔ اس خلا کو فلور ملز نے کارٹیلائزیشن یعنی باہمی گٹھ جوڑ سے پر کر دیا اور قیمتوں پر اثرانداز ہونے لگیں۔ دوسری طرف فارم گیٹ (Farm Gate) یعنی کھیت کی سطح پر گندم کی قیمت کم ہونے سے کسانوں کو شدید مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑا، کیونکہ وہ پیداواری لاگت پوری نہ کر سکے۔

سفارشات: مکمل ڈی ریگولیشن اور منڈی کی آزادی
(PIDE) نے تجویز دی ہے کہ گندم کے شعبے کو مکمل طور پر ڈی ریگولیٹ کیا جائے تاکہ مارکیٹ خود بخود طلب و رسد کے مطابق قیمتیں مقرر کر سکے۔ اس عمل سے:
- مارکیٹ میں شفافیت بڑھے گی
- کسان کو حقیقی قیمت ملے گی
- حکومتی وسائل بچیں گے
- ذخیرہ اندوزی کی حوصلہ شکنی ہوگی
- زرعی شعبے میں مقابلے کی فضا پیدا ہوگی
نتیجہ: اصلاحات وقت کی ضرورت
پاکستان جیسے زرعی ملک میں گندم ایک اسٹریٹجک فصل ہے، جس کا براہ راست اثر غذائی تحفظ، مہنگائی اور دیہی معیشت پر ہوتا ہے۔ تاہم، اگر اس شعبے میں دیرپا اور مؤثر اصلاحات نہ کی گئیں تو یہ نہ صرف اقتصادی بوجھ بنے گا بلکہ کسان اور صارف دونوں متاثر ہوتے رہیں گے۔ امدادی قیمت کی جگہ ایک مارکیٹ بیسڈ ماڈل وقت کی اہم ضرورت ہے۔