ڈی جی آئی ایس پی آر کا سہیل وڑائچ کا عاصم منیر سے انٹرویو کے دعوے پر سخت ردعمل — فیلڈ مارشل کی طرف سے کوئی انٹرویو نہیں دیا گیا
اسلام آباد :— پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے معروف صحافی سہیل وڑائچ کے حالیہ آرٹیکل پر شدید ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ "ذاتی مفاد اور تشہیر کے لیے غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کیا گیا ہے۔ 9 مئی کے واقعات میں ملوث عناصر کو قانون کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔ فیلڈ مارشل کی جانب سے کوئی انٹرویو نہیں دیا گیا۔”
سہیل وڑائچ کا آرٹیکل اور تنازعہ کی ابتدا
معروف صحافی سہیل وڑائچ نے حال ہی میں اپنے کالم میں آرمی چیف فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر کے حوالے سے کئی دعوے کیے ہیں جنہوں نے ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے۔ ہفتہ کے روز روزنامہ جنگ میں شائع ہونے والا یہ کالم سیاسی، صحافتی اور سوشل میڈیا حلقوں میں شدید توجہ کا مرکز بن گیا ہے۔
برسلز کا ایونٹ اورسہیل وڑائچ کا عاصم منیر سے انٹرویو
سہیل وڑائچ نے لکھا کہ ان کی جنرل عاصم منیر سے پہلی ملاقات بیلجیئم کے شہر برسلز میں ہوئی۔ یہ ملاقات ایک کانفرنس کے دوران ہوئی جس میں یورپ بھر سے اوورسیز پاکستانی شریک تھے۔ ان کے بقول، یہ ملاقات کسی باضابطہ انٹرویو کے بجائے ایک موقع پر کھڑے ہو کر سوال و جواب پر مشتمل تھی۔ تاہم کالم میں درج نکات نے عام تاثر دیا کہ یہ ایک طرح کا انٹرویو تھا جس میں فوجی قیادت کے مستقبل کے منصوبے، سیاسی حکمتِ عملی اور معاشی وژن پر بات ہوئی۔
ڈی جی آئی ایس پی آر کا ردعمل
آج اسلام آباد میں سینئر صحافیوں سے غیر رسمی ملاقات کے دوران ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے سہیل وڑائچ کا عاصم منیر سے انٹرویو کے دعوے کو "سراسر غیر ذمہ دارانہ” قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا:
"یہ جو آرٹیکل تحریر کیا گیا، اس میں جس انٹرویو یا تبصرے کا حوالہ دیا جا رہا ہے، وہ حقیقت پر مبنی نہیں ہے۔ برسلز میں ایک عوامی ایونٹ تھا جہاں سیکڑوں لوگوں نے تصاویر بنوائیں۔ سہیل وڑائچ کا عاصم منیر سے انٹرویو نہیں ہوا۔ نہ پی ٹی آئی کا ذکر ہوا، نہ ہی کسی معافی کا۔ یہ سب ایک صحافی کی ذاتی تشہیر اور مفاد کے لیے گھڑا گیا بیانیہ ہے۔”
انہوں نے مزید کہا کہ افسوس کی بات ہے کہ ایک سینئر اور تجربہ کار صحافی ہوتے ہوئے سہیل وڑائچ نے ذمہ داری کا مظاہرہ نہیں کیا۔
سہیل وڑائچ کا عاصم منیر سے انٹرویو اور متنازعہ کالم
کالم کے مطابق، جنرل عاصم منیر نے صدرِ پاکستان یا وزیراعظم کو تبدیل کرنے کی افواہوں کو بے بنیاد قرار دیا اور کہا کہ ان باتوں کے پیچھے صرف وہ عناصر ہیں جو سیاسی انتشار پھیلانا چاہتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ سپاہی ہیں اور ان کی سب سے بڑی خواہش شہادت ہے، اس کے علاوہ کسی سیاسی یا انتظامی عہدے کی ان کو خواہش نہیں۔
سہیل وڑائچ کا عاصم منیر سے انٹرویو کے دوران جنرل عاصم منیر کا یہ دعویٰ چونکا دینے والا تھا کیونکہ پاکستان میں اکثر افواہیں گردش کرتی رہتی ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ حکومتوں کی تبدیلی میں کردار ادا کرتی ہے۔ سہیل وڑائچ کے کالم نے ایک بار پھر انہی سوالات کو زندہ کر دیا ہے۔
معاشی روڈ میپ — پانچ اور دس سالہ منصوبہ
کالم کے سب سے زیادہ زیر بحث آنے والے حصے میں آرمی چیف کے معاشی وژن کا ذکر ہے۔ سہیل وڑائچ کے مطابق جنرل عاصم منیر کے پاس ایک مکمل روڈ میپ موجود ہے جس کے ذریعے پانچ سے دس سال کے اندر پاکستان کو ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑا کرنے کا عزم ظاہر کیا گیا۔ اس میں ریکوڈک منصوبے سے سالانہ دو ارب ڈالر منافع اور دیگر معدنی وسائل کے استعمال سے ملک کے قرضوں کی ادائیگی جیسے نکات شامل تھے۔
یہ بات بھی زیرِ بحث آئی کہ آیا ایک فوجی سربراہ کے پاس ایسے معاشی منصوبے کس حد تک ہونا چاہیے اور کیا یہ آئینی و جمہوری ڈھانچے کے مطابق ہے یا نہیں۔

9 مئی کے واقعات پر فوج کا مؤقف
لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف نے اپنی گفتگو میں 9 مئی 2023 کے واقعات کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ اس روز ریاستی اداروں اور فوجی تنصیبات پر حملہ ہوا، جسے کسی صورت نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ ان کا کہنا تھا:
"9 مئی کے ذمہ داران اور سہولت کاروں کو قانون کے مطابق کٹہرے میں لانا ہوگا۔ یہ کوئی ذاتی مسئلہ نہیں بلکہ ریاست کی بقا کا معاملہ ہے۔ ہم نے واضح کر دیا ہے کہ قانون سب کے لیے برابر ہے۔”
خطے کی صورتحال اور دشمنوں کی سازشیں
ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ پاکستان خطے کی تقدیر بدلنے کی صلاحیت رکھتا ہے، یہی وجہ ہے کہ اسے اندرونی و بیرونی محاذوں پر تواتر سے دباؤ کا سامنا رہتا ہے۔ انہوں نے بھارت پر الزام عائد کیا کہ وہ دہشت گردانہ پراکسیز اور سہولت کاروں کے ذریعے پاکستان کو عدم استحکام کا شکار کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
ان کے مطابق:
"ہندوستان کا خیال تھا کہ اگر وہ اپنی پراکسیز کے ذریعے اور عسکری مشینری کے بل بوتے پر حملہ کرے گا تو پاکستان کو باآسانی شکست دے دے گا۔ لیکن جب اس نے عملی کوشش کی تو اس کا الٹا اثر ہوا۔ پاکستان نے دونوں محاذوں پر دشمن کو بھرپور جواب دیا، نتیجہ یہ نکلا کہ بھارت خود ڈس کریڈٹ ہو گیا۔”
خاور حسین کا پوسٹ مارٹم: جسم پر تشدد کا کوئی نشان نہیں ملا
داخلی سلامتی اور افغان پناہ گزینوں کا مسئلہ
گفتگو کے دوران ڈی جی آئی ایس پی آر نے داخلی سلامتی کے چیلنجز پر بھی روشنی ڈالی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان سے دہشت گردی کے مکمل خاتمے کے لیے غیر قانونی سرگرمیوں اور نیٹ ورکس کو ختم کرنا ناگزیر ہے۔ ان کے مطابق نیشنل ایکشن پلان کے 14 نکات پر مکمل عمل درآمد اب بھی باقی ہے، اور یہی قومی سلامتی کی ضمانت ہے۔
انہوں نے خاص طور پر غیر قانونی افغان پناہ گزینوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ:
"جب بھی ہم ایسے عناصر کو بے دخل کرنے کی بات کرتے ہیں جو جرائم میں ملوث ہیں، تو ہمارے ہی ملک کے چند سیاسی اور جرائم پیشہ کرداروں کو مسئلہ شروع ہوجاتا ہے۔ یہ رویہ ملک کے لیے نقصان دہ ہے۔”
فوج کا مؤقف اور گورننس کا خلا
لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف نے کہا کہ پاکستان میں گورننس کے فقدان کو روزانہ کی بنیاد پر فوج، پولیس اور قانون نافذ کرنے والے ادارے اپنے خون سے پورا کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ملک کے نوجوان سب سے قیمتی اثاثہ ہیں اور انہیں اپنی نظریاتی ریاست کی میراث اور تاریخ سے واقف ہونا چاہیے۔
صحافتی حلقوں کا ردعمل
سہیل وڑائچ کے کالم اور اس پر فوج کے ردعمل نے صحافتی اور سیاسی حلقوں میں نئی بحث چھیڑ دی ہے۔ کچھ صحافیوں کا کہنا ہے کہ فوج کی طرف سے سخت ردعمل نے آزادی اظہار کے بارے میں سوالات کو جنم دیا ہے، جبکہ دوسروں کے مطابق سہیل وڑائچ نے صحافتی اصولوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے غیر مصدقہ معلومات پر مبنی کہانی پیش کی۔
ایک سینئر تجزیہ کار کے مطابق:
"یہ معاملہ اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ صحافی ذمہ داری کے ساتھ خبریں اور تجزیے کریں۔ حساس اداروں کے بارے میں قیاس آرائی ملک کے اندر مزید انتشار پیدا کرتی ہے۔”
عوامی ردعمل
سوشل میڈیا پر اس تنازعے پر ملا جلا ردعمل سامنے آیا۔ کچھ صارفین نے سہیل وڑائچ کے حق میں لکھا کہ وہ ہمیشہ حقائق کو بے باکی سے سامنے لاتے ہیں، جبکہ دیگر نے کہا کہ اس بار انہوں نے اپنی ساکھ کو نقصان پہنچایا ہے۔ دوسری جانب فوجی ترجمان کے بیان کو بھی بڑے پیمانے پر شیئر کیا جا رہا ہے جس میں انہوں نے کالم کو "ذاتی مفاد پر مبنی کوشش” قرار دیا۔
سہیل وڑائچ کا عاصم منیر سے انٹرویو والا تنازعہ اس وقت سامنے آیا ہے جب پاکستان ایک طرف دہشت گردی اور معاشی بحران سے نمٹنے کی کوشش کر رہا ہے، اور دوسری طرف سیاسی عدم استحکام کا شکار ہے۔ فوج اور میڈیا کے درمیان اعتماد کا فقدان مزید گہرا ہو رہا ہے، جس سے قومی مکالمے میں تناؤ بڑھ رہا ہے۔
سہیل وڑائچ کا کالم محض ایک تحریر نہیں بلکہ اس نے یہ سوال ضرور اٹھا دیا ہے کہ پاکستان میں صحافت اور عسکری اداروں کے درمیان تعلقات کس رخ پر جا رہے ہیں۔ دوسری طرف فوج کا یہ دوٹوک مؤقف کہ "کوئی انٹرویو نہیں دیا گیا” بھی اس بات کو واضح کرتا ہے کہ ادارے اپنی ساکھ کے معاملے پر کسی قسم کا سمجھوتہ کرنے کو تیار نہیں۔
یہ دیکھنا باقی ہے کہ آنے والے دنوں میں یہ معاملہ مزید بڑھتا ہے یا وقت کے ساتھ مدھم پڑ جاتا ہے، تاہم ایک بات طے ہے کہ 9 مئی کے واقعات اور ان کے ذمہ داران کے خلاف کارروائی آنے والے سیاسی و عسکری بیانیے کا محور بنی رہے گی۔
Meeting Field Marshal General Asim Munir in Brussels pic.twitter.com/NEcxHKB2UH
— Suhail Warraich (@suhailswarraich) August 17, 2025
READ MORE FAQs”
کیا جنرل عاصم منیر نے سہیل وڑائچ کو انٹرویو دیا تھا؟
نہیں، ڈی جی آئی ایس پی آر کے مطابق فیلڈ مارشل عاصم منیر نے کوئی انٹرویو نہیں دیا۔
سہیل وڑائچ کے کالم پر فوج کا ردعمل کیا ہے؟
فوجی ترجمان نے کالم کو غیر ذمہ دارانہ اور ذاتی مفاد پر مبنی قرار دیا ہے۔
9 مئی کے واقعات پر فوج کا مؤقف کیا ہے؟
فوج کے مطابق 9 مئی کے ذمہ داران کو ہر صورت قانون کے مطابق سزا دی جائے گی۔
صحافتی حلقوں میں اس تنازعے پر کیا ردعمل آیا ہے؟
کچھ صحافیوں نے اسے آزادی اظہار کا معاملہ کہا جبکہ دیگر نے سہیل وڑائچ کے کالم کو غیر ذمہ دارانہ قرار دیا۔
Comments 1